Tuesday, 23 April 2013

Are You Ready To Change Yourself?

Posted by Unknown on 22:24 with No comments

یہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے

ہ گاڑی کتنی شاندار ہے‘‘۔’’ یہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے ‘‘۔’’ اُس کا بنگلہ تو زبردست ہے‘‘۔ ’’آج کل یہ فیشن اِن ہے‘‘۔ ’’میں تو گرمیو ں کی چھٹیاں ملک سے باہر ہی گزار تاہوں‘‘۔یہ اور ان جیسے جملوں کے درمیان آج کے انسان کی زندگی گزررہی ہے۔ یہ جملے بتاتے ہیں کہ آج کے انسان نے اپنے لیے جینے کی وہ سطح متعین کرلی ہے جو جانوروں کی سطح ہے۔

جانور اپنی پوری زندگی خواہشات کے پیچھے گزارتے ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل کی نعمت نہیں دی ہے۔ وہ صرف بھوک اور جنس کی بنیادی جبلت کے تحت ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں اس دنیا میں جینا ہے اور یہیں ختم ہوجانا ہے۔

اس کے برعکس انسان ایک ہمیشہ رہنے والی مخلوق ہے۔اس کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ باقی ہیں، اس وقت تک وہ ان کے ساتھ رہے گا۔ وہ اللہ کی عبادت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسی نعمتیں عطا کریں گے جو اس کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں گی۔اس جنت میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر خدا کی معرفت حاصل کرلے۔ اس دنیا میں خدا مادی آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ایسے میں انسان کا مشن پردۂ غیب میں چھپے رب کو پانے اور اس کی عظمت کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے انسان کو عقل دی ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت دی ہے۔ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان دیے ہیں۔یہ سب اس لیے دیے گئے ہیں کہ انسان چاند و سورج کی روشنی میں خدا کے نور کو دیکھے۔ سبزے کی ہریالی میں خدا کی ربوبیت کا اندازہ کرے۔ آسمان کی بلندی میں اس کی عظمت کو پہچانے۔ ستاروں کی چمک میں وہ اس کی قدرت کے جلوے دیکھے۔ساون کی برسات میں رب کی رحمت کو دیکھے۔ وہ کائنات میں پھیلی نشانیوں کو دیکھے اور رو رو کر اپنے رب کو پکارے۔ اس کی جنت کا طلبگار بنے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگے۔

مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنی عقل اور بصیرت کو خواہش کے اندھے کنویںمیں پھینک دیتا ہے۔ پیٹ ، جنس اور اَنا کے بتوں کو معبود بناکر ساری زندگی ان کے پیچھے دوڑتا رہتاہے۔ یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔ابدی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ مگر اب ا س کے پاس سوائے ندامت کے کچھ نہیں رہتا۔

یہ وقت بہت لوگوں پر آچکا ہے ۔ آ پ پر آنے والا ہے۔ سو کیاآپ خود کو بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ اپنی عقل و بصیرت کو تسکینِ خواہش کے بجائے معرفتِ رب کا مشن دینے کے لیے تیار ہیں؟

0 comments:

Post a Comment