بے ربط جملہ
ایک روز حضرت عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہ مدینہ منورہ میں خطبۂ جمعہ پڑھ رہے تھے کہ یکایک بلند آواز سے
دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا «يا سارية الجبل!» اور اس کے بعد پھر خطبہ
شروع کردیا، تمام حاضرین کو حیرت تھی کہ یہ بے ربط جملہ آپ رضی اللہ تعالٰی
عنہ کی زبان مبارک سے کیسا نکلا،
حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے تکلفی زیادہ تھی، انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آج آپ نے خطبہ کے درمیان میں «یا سارية الحبل» کیوں فرمایا؟ تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ایک لشکر کا ذکر کیا جو عراق میں بمقام نہاوند جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول تھا، اس لشکر کے امیر حضرت ساریہ رحمہ اللہ تھے، فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کے پاس لڑ رہے ہیں اور دشمن کی فوج سامنے سے بھی آرہی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے جس کی ان لوگوں کو خبر نہیں، یہ دیکھ کر میرا دل قابو میں نہ رہا اور میں نے آواز دی کہ اے ساریہ اس پہاڑی سے مل جاؤ،
تھوڑے دنوں بعد جب ساریہ کا قاصد آیا تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکایک یہ آواز آئی کہ «یا ساریۃ الجبل» اس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔
( حیات الصحابہ )
حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے تکلفی زیادہ تھی، انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آج آپ نے خطبہ کے درمیان میں «یا سارية الحبل» کیوں فرمایا؟ تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ایک لشکر کا ذکر کیا جو عراق میں بمقام نہاوند جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول تھا، اس لشکر کے امیر حضرت ساریہ رحمہ اللہ تھے، فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کے پاس لڑ رہے ہیں اور دشمن کی فوج سامنے سے بھی آرہی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے جس کی ان لوگوں کو خبر نہیں، یہ دیکھ کر میرا دل قابو میں نہ رہا اور میں نے آواز دی کہ اے ساریہ اس پہاڑی سے مل جاؤ،
تھوڑے دنوں بعد جب ساریہ کا قاصد آیا تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکایک یہ آواز آئی کہ «یا ساریۃ الجبل» اس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔
( حیات الصحابہ )
0 comments:
Post a Comment