مقصود
صاحب میرے انگلش کے ٹیچر- مزاج کے نہایت سخت-کبھی کوئی غیر ضروری بات نہ
کرتے اور بچوں سے کبھی بے تکلف نہ ہوتے- پڑھانے کے معاملے میں بھی سختی کا
مظاہرہ کرتے-یہی وجہ تھی کہ بچے ان کی کلاس میں ڈرے اور سہمے رہتے- کلاس
میں ان کے کہے ھوئے چند جملے میں آج تک نہ بھلا سکا ہوں اور مجھے ایسا
محسوس ھوتا ھے جیسے یہ بات ابھی انھوں نے کل ہی کہی ھو- یہ شاید اسکول کے
آخری آخری دن تھے اور امتحان کی چھٹیاں ھونے والی
تھیں جب مقصود صاحب کلاس کے بچوں کو پڑھائی کی تاکید کرتے ھوئے کہنے لگے "
بچوں تم سب لوگ اب اس اسکول سے چلے جاؤ گے اور آگے اپنا مستقبل بناؤگے -
تم میں سے کوئی ڈاکٹر ھوگا کوئی انجنئیر اور کوئی بہت بڑا افسر - پھر ایک
دن تم گاڑی میں بیٹھے بازار سے گزر رہے ھوگے اور دیکھو گے کہ ایک بوڑھا شخص
باسکٹ ھاتھ میں لئے سبزی کی دکان پر کھڑا ھوا ھے اور تم کہو گے ارے ۔ ۔ ۔
یہ تو مقصود صاحب ہیں ھمارے اسکول ٹیچر اور تم تھوڑی دیر رک کر مجھے دیکھو
گے لیکن شاید اپنی مصروفیت کے باعث مجھ سے ملنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرو
گے" - ان الفاظ کو کہہ کر وہ کچھ افسردہ سے ہوگئے اور ان کی آواز اور
آنکھوں سے یہ افسردگی صاف عیاں تھی-
زندگی کا پہیہ چلتا رہا- انجنیرنگ کرنےکے بعد قومی ائرلائن میں نوکری ملی- شادی، بچے اور دیگر بے تحاشہ ذمہ داریاں- ایک بار میں اپنی گاڑی میں بیوی بچوں کے ساتھ حیدرآباد سے واپس کراچی جارہا تھا- والدین کی تنبیہ کے مطابق کوشش تھی کہ رات ہونے سے پہلے کراچی پہنونچا جائے لیکن پھر بھی نکلنے میں دیرہوگئی- اسلئے میں وقت ضائع کیے بغیر جلد از جلد کراچی پہونچنا چاہ رہا تھا کہ بیگم نے یاد دلایا کہ آپ نے کہا تھا کہ ہم حیدرآباد کی ربڑی لے کر چلیں گے - میں نے کہا ہاں! ارادہ تو تھا لیکن اب بہت دیر ہورہی ھے - انشااللہ پھر اگلی مرتبہ جب آئیں گے تو لے لیں گے- بچوں نے سنا تو انہوں نے ضد کی- بیگم نے کہا ابھی ایسی بہت دیر نہیں ہوئی اورابھی ہم شہر سے باہر بھی نہیں نکلے ہیں اسلئے کوئی زیادہ دیر نہ لگے گی- میں نے کہا اچھا لے لیتے ہیں- میں نے گاڑی بازار میں سڑک کی ایک جانب کھڑی کی اور جلد ربڑی کی دوکان میں داخل ہوا جو سامنے ہی تھی- میں ربڑی کے پیالے ہاتھ میں لئے جب دوکان سے نکلا تو اچانک میری نظر تھوڑے ہی فاصلے پر سبزی والے کے ٹھیلے پر کھڑے شخص پر پڑی جو ہاتھ میں باسکٹ لئے سبزی خرید رہا تھا- میرے تیز قدم اچانک رک گئے- مجھے زیادہ دیر نہ لگی انہیں پہچاننے میں- میں نے خود سے کہا - - ارے یہ تو مقصود صاحب ہیں- وہی رنگت۔ وہی داڑھی- وقت نے البتہ اپنا خراج ان کے چہرے پر بڑھاپے کے آثار پیدا کر کے وصول کرلیا تھا- میں بے ساختہ ان کی طرف بڑھنے لگا لیکن پھر میرے قدم سست ہوگئے - گھڑی پر نظر ڈالی اور اپنا رخ اپنی گاڑی کی طرف کرلیا جہاں میر ے بیوی بچے بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھا کیونکہ مجھے بہت دیر ہو چکی تھی اور مجھے جلد از جلد کراچی پہونچنا تھا اسلئے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے ہائی وے کی طرف موڑ لی- بیگم مجھ سے کیا بات کرتی رہیں- مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا- میں بس ہوں ہاں کئے جا رہا تھا کیونکہ میرے کانوں میں تو مقصود صاحب کے کہے ہوئے جملے گونج رہے تھے کہ"بچوں تم سب لوگ اب اس اسکول سے چلے جاؤ گے اور آگے اپنا مستقبل بناؤگے - تم میں سے کوئی ڈاکٹر ھوگا کوئی انجنئیر اور کوئی بہت بڑا افسر - پھر ایک دن تم گاڑی میں بیٹھے بازار سے گزر رہے ھوگے اور دیکھو گے کہ ایک بوڑھا شخص باسکٹ ھاتھ میں لئے سبزی کی دکان پر کھڑا ھوا ھے اور تم کہو گے ارے ۔ ۔ ۔ یہ تو مقصود صاحب ہیں ھمارے اسکول ٹیچر اور تم تھوڑی دیر رک کر مجھے دیکھو گے لیکن شاید اپنی مصروفیت کے باعث مجھ سے ملنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرو گے"۔
زندگی کا پہیہ چلتا رہا- انجنیرنگ کرنےکے بعد قومی ائرلائن میں نوکری ملی- شادی، بچے اور دیگر بے تحاشہ ذمہ داریاں- ایک بار میں اپنی گاڑی میں بیوی بچوں کے ساتھ حیدرآباد سے واپس کراچی جارہا تھا- والدین کی تنبیہ کے مطابق کوشش تھی کہ رات ہونے سے پہلے کراچی پہنونچا جائے لیکن پھر بھی نکلنے میں دیرہوگئی- اسلئے میں وقت ضائع کیے بغیر جلد از جلد کراچی پہونچنا چاہ رہا تھا کہ بیگم نے یاد دلایا کہ آپ نے کہا تھا کہ ہم حیدرآباد کی ربڑی لے کر چلیں گے - میں نے کہا ہاں! ارادہ تو تھا لیکن اب بہت دیر ہورہی ھے - انشااللہ پھر اگلی مرتبہ جب آئیں گے تو لے لیں گے- بچوں نے سنا تو انہوں نے ضد کی- بیگم نے کہا ابھی ایسی بہت دیر نہیں ہوئی اورابھی ہم شہر سے باہر بھی نہیں نکلے ہیں اسلئے کوئی زیادہ دیر نہ لگے گی- میں نے کہا اچھا لے لیتے ہیں- میں نے گاڑی بازار میں سڑک کی ایک جانب کھڑی کی اور جلد ربڑی کی دوکان میں داخل ہوا جو سامنے ہی تھی- میں ربڑی کے پیالے ہاتھ میں لئے جب دوکان سے نکلا تو اچانک میری نظر تھوڑے ہی فاصلے پر سبزی والے کے ٹھیلے پر کھڑے شخص پر پڑی جو ہاتھ میں باسکٹ لئے سبزی خرید رہا تھا- میرے تیز قدم اچانک رک گئے- مجھے زیادہ دیر نہ لگی انہیں پہچاننے میں- میں نے خود سے کہا - - ارے یہ تو مقصود صاحب ہیں- وہی رنگت۔ وہی داڑھی- وقت نے البتہ اپنا خراج ان کے چہرے پر بڑھاپے کے آثار پیدا کر کے وصول کرلیا تھا- میں بے ساختہ ان کی طرف بڑھنے لگا لیکن پھر میرے قدم سست ہوگئے - گھڑی پر نظر ڈالی اور اپنا رخ اپنی گاڑی کی طرف کرلیا جہاں میر ے بیوی بچے بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھا کیونکہ مجھے بہت دیر ہو چکی تھی اور مجھے جلد از جلد کراچی پہونچنا تھا اسلئے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے ہائی وے کی طرف موڑ لی- بیگم مجھ سے کیا بات کرتی رہیں- مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا- میں بس ہوں ہاں کئے جا رہا تھا کیونکہ میرے کانوں میں تو مقصود صاحب کے کہے ہوئے جملے گونج رہے تھے کہ"بچوں تم سب لوگ اب اس اسکول سے چلے جاؤ گے اور آگے اپنا مستقبل بناؤگے - تم میں سے کوئی ڈاکٹر ھوگا کوئی انجنئیر اور کوئی بہت بڑا افسر - پھر ایک دن تم گاڑی میں بیٹھے بازار سے گزر رہے ھوگے اور دیکھو گے کہ ایک بوڑھا شخص باسکٹ ھاتھ میں لئے سبزی کی دکان پر کھڑا ھوا ھے اور تم کہو گے ارے ۔ ۔ ۔ یہ تو مقصود صاحب ہیں ھمارے اسکول ٹیچر اور تم تھوڑی دیر رک کر مجھے دیکھو گے لیکن شاید اپنی مصروفیت کے باعث مجھ سے ملنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرو گے"۔
0 comments:
Post a Comment