واقعۂ اُفک
سب
سے بڑا واقعہ جس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پریشانی میں مبتلا
کیے رکھا واقعہ افک ہے ۔ یہ غزوہ بنی المصطلق کے سفر میں پیش آیا ۔ حکم
نبوی کے مطابق منہ اندھیرے قافلہ چل پڑا ۔اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
رفع حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلی ہوئی تھیں ۔ کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھنے
والے صحابہ یہ سمجھے کہ شاید زوجہ مطہرہ اس میں تشریف فرما ہیں لیکن وہ اس
میں موجود نہ تھیں ۔اس بے خبری میں فوج کوچ
کر گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہا واپس آئیں تو اس خیال سے وہیں مقیم ہو گئیں کہ
جب قافلے کو معلوم ہوگا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو واپس پلٹیں گے ۔ اس
وقت رات ابھی باقی تھی اس لیے بیٹھے بیٹھے انہیں نیند آ گئی ۔ وہیں زمین پر
لیٹیں اور سو گئیں ۔
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ جن کی دربار ِ رسالت کی طرف سے یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ رات کو کوچ کی صورت میں وہ قیام گاہ پررک جایا کریں اور صبح روشنی ہونے پر ساری قیام گاہ کا جائزہ لے لیا کریں کہ کسی کی کوئی چیز تو پیچھے نہیں رہ گئی ۔ اس صبح جب وہ اٹھے تو ام المومنین کو وہاں موجود پایا ۔ انہوں نے اپنااونٹ قریب لا کر بٹھا دیا اور دوسری طرف منہ کر کے بلند آواز سے انا للہ پڑا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت صفوان بن معطل ایک بہت نیک سیرت انسان تھے ۔ حضرت عائشہ بلا خوف و خطر اونٹ پر سوار ہو گئیں ۔ صحابی رسول نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین کو ساتھ لے کر فوج کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
اس واقعہ کو بنیاد بنا کر منافقین نے ایک طوفان اٹھایا ۔ عبداللہ بن ابی ّ اس سارے فتنے کا سرغنہ تھا ۔ پاکدامن صدیقہ پر یہ تہمت اتنی بڑی جسارت تھی کہ اس کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن بہر حال یہ واقعہ افک رونما ہوا اور جھوٹے پراپیگنڈے سے تین مخلص صحابہ بھی متاثر ہوگئے یعنی حضرت حسان بن ثابت ، حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت ِ جحش رضی اللہ تعالی عنھم۔ منافقین کئی دنوں تک اس اذیت ناک صورتحال کو ہوا دیتے رہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر یہ لمحات کس قدرگراں تھے اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس سارے طوفان کا پتہ کئی دن بعد چلا جب ان کی رشتے کی خالہ اور مسطح کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی ۔ انہیں تعجب ہوا کہ اتنے اچھے بیٹے کو بد دعا کیوں دی جارہی ہے ۔ اس موقع پر ان کی خالہ کی زبانی ان کے سامنے حقیقت حال کھلی ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیےگھر سے باہر جارہی تھیں ۔ اس بات کا سننا تھاکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ وہ ہر چیز کو بھول گئیں اور پریشانی کے عالم میں وہیں سے واپس اپنے والد کے گھر لوٹ گئیں ۔ فتنے کے یہ سارے ایام ان کے لیے سوہان روح تھے ۔ وہ بستر سے لگ گئیں ۔ کسی سے بولتی چالتی بھی نہیں تھیں ۔ اللہ کے نبی جانتے تھے کہ ان کی زوجہ بالکل بے گناہ ہیں اور سیدنا ابو بکر صدیق کو بھی یقین تھاکہ ان کی بیٹی میں کوئی عیب نہیں ۔ عام صحابہ بھی اس بات پہ مطمئن تھے کہ صدیقہ پر لگنے والا الزام جھوٹ ہے لیکن ابھی تک ہر جانب خاموشی تھی تاآنکہ خود رب کائنات نے اس خاموشی کو توڑا ۔ سورہ نور میں وہ آیات نازل ہوئیں جنھوں نے منافقین کے منہ میں خاک ڈال دی ۔ بہک جانے والے مسلمانوں کو کذب کی سزا بھگتنا پڑی اور پورے معاشرے کو سرزنش کی گئی کہ کیوں نہ مسلمان مرد اور عورتیں اس افترا کو سنتے ہی پکار اٹھے کہ یہ افک مبین ہے ۔ یوں حضرت عائشہ صدیقہ کا بے داغ کردار قرآن کے صفحات کی زینت بن گیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برات کا حکم آیا تو ان کے والدین نے کہا کہ چلو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو ۔ انہوں نے بے ساختہ کہ اکہ میں تو اللہ کے سامنے سجدہ شکر اداکرتی ہوں جس نے میری برات کا اعلان کیا ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت کیا کرتے تھے ۔آپ کا مشہور قول ہے کہ عائشہ کو خواتین پر ویسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو ۔
حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں آنحضور مرض الموت میں مقیم تھے ۔ان دنوں چونکہ آپ کا دوسری امہات المومنین کے حجروں میں منتقل ہونا تکلیف کا باعث ہو سکتا تھا لہذا آپ نے سب سے اجازت لے لی کہ عائشہ کے حجرے میں ہی آپ مقیم رہیں ۔ ان ایام میں حضرت عائشہ دن رات آنحضور کی خدمت اور تیمار داری کرتی رہیں۔ حضرت عائشہ کا یہ بھی اعزاز ہے کہ آنحضور کی رحلت انہی کے حجرے میں ہوئی اور پھر یہیں آنحضور کی آخرم آرام گاہ بنی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا جب آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی جانب محو پرواز ہو گئی ۔
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ جن کی دربار ِ رسالت کی طرف سے یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ رات کو کوچ کی صورت میں وہ قیام گاہ پررک جایا کریں اور صبح روشنی ہونے پر ساری قیام گاہ کا جائزہ لے لیا کریں کہ کسی کی کوئی چیز تو پیچھے نہیں رہ گئی ۔ اس صبح جب وہ اٹھے تو ام المومنین کو وہاں موجود پایا ۔ انہوں نے اپنااونٹ قریب لا کر بٹھا دیا اور دوسری طرف منہ کر کے بلند آواز سے انا للہ پڑا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت صفوان بن معطل ایک بہت نیک سیرت انسان تھے ۔ حضرت عائشہ بلا خوف و خطر اونٹ پر سوار ہو گئیں ۔ صحابی رسول نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین کو ساتھ لے کر فوج کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
اس واقعہ کو بنیاد بنا کر منافقین نے ایک طوفان اٹھایا ۔ عبداللہ بن ابی ّ اس سارے فتنے کا سرغنہ تھا ۔ پاکدامن صدیقہ پر یہ تہمت اتنی بڑی جسارت تھی کہ اس کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن بہر حال یہ واقعہ افک رونما ہوا اور جھوٹے پراپیگنڈے سے تین مخلص صحابہ بھی متاثر ہوگئے یعنی حضرت حسان بن ثابت ، حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت ِ جحش رضی اللہ تعالی عنھم۔ منافقین کئی دنوں تک اس اذیت ناک صورتحال کو ہوا دیتے رہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر یہ لمحات کس قدرگراں تھے اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس سارے طوفان کا پتہ کئی دن بعد چلا جب ان کی رشتے کی خالہ اور مسطح کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی ۔ انہیں تعجب ہوا کہ اتنے اچھے بیٹے کو بد دعا کیوں دی جارہی ہے ۔ اس موقع پر ان کی خالہ کی زبانی ان کے سامنے حقیقت حال کھلی ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیےگھر سے باہر جارہی تھیں ۔ اس بات کا سننا تھاکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ وہ ہر چیز کو بھول گئیں اور پریشانی کے عالم میں وہیں سے واپس اپنے والد کے گھر لوٹ گئیں ۔ فتنے کے یہ سارے ایام ان کے لیے سوہان روح تھے ۔ وہ بستر سے لگ گئیں ۔ کسی سے بولتی چالتی بھی نہیں تھیں ۔ اللہ کے نبی جانتے تھے کہ ان کی زوجہ بالکل بے گناہ ہیں اور سیدنا ابو بکر صدیق کو بھی یقین تھاکہ ان کی بیٹی میں کوئی عیب نہیں ۔ عام صحابہ بھی اس بات پہ مطمئن تھے کہ صدیقہ پر لگنے والا الزام جھوٹ ہے لیکن ابھی تک ہر جانب خاموشی تھی تاآنکہ خود رب کائنات نے اس خاموشی کو توڑا ۔ سورہ نور میں وہ آیات نازل ہوئیں جنھوں نے منافقین کے منہ میں خاک ڈال دی ۔ بہک جانے والے مسلمانوں کو کذب کی سزا بھگتنا پڑی اور پورے معاشرے کو سرزنش کی گئی کہ کیوں نہ مسلمان مرد اور عورتیں اس افترا کو سنتے ہی پکار اٹھے کہ یہ افک مبین ہے ۔ یوں حضرت عائشہ صدیقہ کا بے داغ کردار قرآن کے صفحات کی زینت بن گیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برات کا حکم آیا تو ان کے والدین نے کہا کہ چلو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو ۔ انہوں نے بے ساختہ کہ اکہ میں تو اللہ کے سامنے سجدہ شکر اداکرتی ہوں جس نے میری برات کا اعلان کیا ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت کیا کرتے تھے ۔آپ کا مشہور قول ہے کہ عائشہ کو خواتین پر ویسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو ۔
حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں آنحضور مرض الموت میں مقیم تھے ۔ان دنوں چونکہ آپ کا دوسری امہات المومنین کے حجروں میں منتقل ہونا تکلیف کا باعث ہو سکتا تھا لہذا آپ نے سب سے اجازت لے لی کہ عائشہ کے حجرے میں ہی آپ مقیم رہیں ۔ ان ایام میں حضرت عائشہ دن رات آنحضور کی خدمت اور تیمار داری کرتی رہیں۔ حضرت عائشہ کا یہ بھی اعزاز ہے کہ آنحضور کی رحلت انہی کے حجرے میں ہوئی اور پھر یہیں آنحضور کی آخرم آرام گاہ بنی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا جب آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی جانب محو پرواز ہو گئی ۔
0 comments:
Post a Comment