حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ
عنہ کا نام اسلام قبول کرنے سے قبل حصین بن سلام بن حارث تھا اور ان کی
کنیت ابو یوسف تھی۔ حصین بن سلام تورات کے عالم تھے۔ انہوں نے تورات میں یہ
پڑھا تھا کہ مکہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ دل میں ہر وقت یہی خیال
رہتا تھا کہ نئے نبی کی زیارت کا کب شرف حاصل ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن
مجھے پتہ چلا کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں اور وادی ¿ قباءمیں قیام
پذیر ہیں۔
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو لوگ بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان بھاگ کر حاضر ہونے والوں میں، میں بھی تھا۔ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا“۔
مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا کہ آپ قباءمیں عمروبن عوف کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو میں اس وقت درخت پر بیٹھا کھجوریں توڑ رہا تھا اور میری پھوپھی درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ خبر سنتے ہی زور سے اللہ اکبر کہا۔ میری پھوپھی نے جب مجھ سے نعرہ ¿ تکبیر سنا تو انہوں نے کہا، حصین تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اتنی خوشی تجھے اس صورت میں نہ ہوتی کہ حضرت موسیٰ بن عمران تشریف لے آتے۔ میں نے کہا پھوپھی یہ بھی اللہ کے سچے نبی ہیں، جس طرح موسیٰ اللہ کے سچے نبی تھے۔ انہیں سچا دین دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پھوپھی نے میری بات سن کر کہا: واقعی یہ بات درست ہے۔ میں نے کہا ہاں میں بالکل صحیح کہتا ہوں۔ پھوپھی نے کہا: پھر تو ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کےلئے گیا۔ حصین بن سلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلی بات جو انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنی وہ یہ تھی، آپ نے ارشاد فرمایا:
”سلام پھیلاﺅ، کھانا کھلاﺅ، صلہ ¿ رحمی کرو، رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو اور جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاﺅ،، (الاستیعاب)
جب حصین بن سلام نے اسلام قبول کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ بن سلام رکھ دیا۔
اسلام کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آئے، اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی، سب نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہ دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوئی کہ تمام اہل خانہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا قبولِ اسلام یہودیوں سے چھپائے رکھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ بڑی افتراءپرداز قوم ہے۔ آپ اس طرح کریں کہ مجھے اپنے گھر میں کہیں چھپالیں، پھر یہودیوں کو بلاکر میرے بارے میں پوچھیں کہ میں ان کے نزدیک کیسا ہوں، اگر انہیں میرے مسلمان ہونے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو چھپادیا، پھر یہودیوں کے سرکردہ افراد کو بلایا اور ان سے پوچھا حصین بن سلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کیسا آدمی ہے؟ انہوں نے بیک زبان کہا:
وہ ہمارا سردار، ہمارے سردار کا بیٹا ہے، اور ہمارا عالم، فاضل ہے۔ کیا بتائیں بڑی خوبیاں ہیں اس میں۔
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے میرے بارے میں اظہار خیال کردیا تو میں ایک کونے سے چپکے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا اور ان سے کہا: اے یہودیو! اللہ سے سے ڈور اور جو کچھ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لائے ہیں اسے قبول کرلو۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تم نے تورات میں ان کا نام اور ان کے اوصاف دیکھے ہں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ ان کو سچا مانتا ہوں۔
انہوں نے یہ سنتے ہی پینترا بدلا اور کہنے لگے تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا، میں نے نہیں کہا تھا کہ یہودی بڑے افتراءپرداز ہیں، بڑے جھوٹے، مکار اور دغا باز ہیں، میں نے اس کے سامنے ببانگ دہل اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔
میری پھوپھی خالدہ بنت حارث بھی مسلمان ہوگئیں اور انھوں نے اسلام کے تقاضوں کو خوب اچھی طرح پہچان لیا۔
السیرة الحلبیة
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو لوگ بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان بھاگ کر حاضر ہونے والوں میں، میں بھی تھا۔ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا“۔
مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا کہ آپ قباءمیں عمروبن عوف کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو میں اس وقت درخت پر بیٹھا کھجوریں توڑ رہا تھا اور میری پھوپھی درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ خبر سنتے ہی زور سے اللہ اکبر کہا۔ میری پھوپھی نے جب مجھ سے نعرہ ¿ تکبیر سنا تو انہوں نے کہا، حصین تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اتنی خوشی تجھے اس صورت میں نہ ہوتی کہ حضرت موسیٰ بن عمران تشریف لے آتے۔ میں نے کہا پھوپھی یہ بھی اللہ کے سچے نبی ہیں، جس طرح موسیٰ اللہ کے سچے نبی تھے۔ انہیں سچا دین دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پھوپھی نے میری بات سن کر کہا: واقعی یہ بات درست ہے۔ میں نے کہا ہاں میں بالکل صحیح کہتا ہوں۔ پھوپھی نے کہا: پھر تو ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کےلئے گیا۔ حصین بن سلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلی بات جو انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنی وہ یہ تھی، آپ نے ارشاد فرمایا:
”سلام پھیلاﺅ، کھانا کھلاﺅ، صلہ ¿ رحمی کرو، رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو اور جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاﺅ،، (الاستیعاب)
جب حصین بن سلام نے اسلام قبول کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ بن سلام رکھ دیا۔
اسلام کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آئے، اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی، سب نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہ دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوئی کہ تمام اہل خانہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا قبولِ اسلام یہودیوں سے چھپائے رکھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ بڑی افتراءپرداز قوم ہے۔ آپ اس طرح کریں کہ مجھے اپنے گھر میں کہیں چھپالیں، پھر یہودیوں کو بلاکر میرے بارے میں پوچھیں کہ میں ان کے نزدیک کیسا ہوں، اگر انہیں میرے مسلمان ہونے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو چھپادیا، پھر یہودیوں کے سرکردہ افراد کو بلایا اور ان سے پوچھا حصین بن سلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کیسا آدمی ہے؟ انہوں نے بیک زبان کہا:
وہ ہمارا سردار، ہمارے سردار کا بیٹا ہے، اور ہمارا عالم، فاضل ہے۔ کیا بتائیں بڑی خوبیاں ہیں اس میں۔
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے میرے بارے میں اظہار خیال کردیا تو میں ایک کونے سے چپکے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا اور ان سے کہا: اے یہودیو! اللہ سے سے ڈور اور جو کچھ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لائے ہیں اسے قبول کرلو۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تم نے تورات میں ان کا نام اور ان کے اوصاف دیکھے ہں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ ان کو سچا مانتا ہوں۔
انہوں نے یہ سنتے ہی پینترا بدلا اور کہنے لگے تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا، میں نے نہیں کہا تھا کہ یہودی بڑے افتراءپرداز ہیں، بڑے جھوٹے، مکار اور دغا باز ہیں، میں نے اس کے سامنے ببانگ دہل اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔
میری پھوپھی خالدہ بنت حارث بھی مسلمان ہوگئیں اور انھوں نے اسلام کے تقاضوں کو خوب اچھی طرح پہچان لیا۔
السیرة الحلبیة
0 comments:
Post a Comment