Thursday, 25 April 2013

Hazrat Abu Bakr's Commitment

Posted by Unknown on 08:39 with No comments

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعزم

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال شریف کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تخت خلافت پر مسلمانوں نے متمکن کیا اور فورا ہی چند دنوں میں ارتداد کا فتنہ زور سے اٹھا کر ہر قبیلے میں نبی اور رسول پیدا ہونے لگا۔ مرد تو مرد رہے ، عورتوں نے بھی دعوی شروع کردیا کہ ہم بھی نبیہ ہیں ، ہم پر بھی وحی نازل ہوتی ہے ، ہمیں بھی نبوت پر فائز کیا گیا ہے، ایک جھگڑا آگیا ، ایک آندھی چل گئی ، جس کو دیکھو وہ اپنے قبیلے کے لئے نبوت کا دعوی کر رہا ہے۔ بہت ساری دنیا کو اپنے پیچھے چلائے ہوئے ہے۔ تو جب یہ اطلاعات مدینہ منورہ پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجلش مشاورت طلب کی ، جلیل القدر صحابہ کومشورے کے لئے بلایا۔ بعض لوگوں نے زکٰوۃ دینے سے انکار کردیا کہ ہم زکٰوۃ نہیں دیتے۔ آپ نے مشورہ لیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ حالات یہ ہیں ، بعض صحابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ جو منکرین زکٰوۃ نہیں دیتے وہ کلمہ تو پڑھتے ہیں ، نماز تو پڑھتے ہیں، حج تو کرتے ہیں، اگر ہم ان سے اس وقت جنگ کریں گے تو حالات بڑے نازک ہیں کیونکہ ہر قبیلے سے ایک نبی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ چند لوگ بھی ہمارے مخالف ہو جائیں گے ۔ سارا عرب ہمارے مخالف اٹھ کھڑا ہوگا۔ ہم تو تباہ و برباد ہوکر رہ جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے ان نبوت کے جھوٹے دعوے دارون کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد منکرین زکٰوۃ کے ساتھ دو دو ہاتھ کریں گے۔ یہ تو دوسرے صحابہ کرام کی رائے تھی ۔ خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کیا رائے تھی ۔۔۔؟
وہ صدیق جس کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے مصلے پر کھڑا کیا تھا۔
"مرو بابی بکر فلیصلی بالناس"
حکم دو ابوبکر کو وہ میرے مصلے پر کھڑے ہوکر لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکی میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پڑھائیں۔ آپ امام بنے اور سارے مسلمانوں نے آپ کے مقتدی بن کر آپ کے پیچھے نمازیں ادا کیں۔
تو جس کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کی امامت کے لیے چنا تھا، اس صدیق نے کیا جواب دیا۔
آپ نے فرمایا کہ تم یہ کہتے ہو کہ دشمن کی طاقت بہت زیادہے ، ہماری تعداد بہت کم ہے اور اگر ہم نے ان کے ساتھ جنگ کی تو دشمن ہم پر ہلہ بول دے گا اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔
کان کھول کر سن لو وہ رسی کہ جس کے ساتھ اونٹ کے پاوں باندھے جاتے ہیں اور یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ تک وہ زکٰوۃ کے طور پر ادا کرتے تھے اور اب اگر وہ بھی دینے سے انکار کریں گے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اکیلا بھی ان کے ساتھ جنگ کرے گا۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری لاش جنگل کے چیتے اور بھیڑیے باہر گھسیٹ کر لے جائیں اور نوچ کر پارہ پارہ کردیں۔ اپنے ساتھ تو میں یہ سلوک برداشت کرسکتا ہوں لیکن محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرسکتا۔
اسی عزم کا نتیجہ تھا ، اسی توکّل کا نتیجہ تھا کہ وہ سارے فتنے جو آپ کے مختصر سے دور میں پیدا ہوئے ، ختم ہوگئے۔ آپ صرف دو سال ، چار مہینے اور چند دن تختِ خلافت پر متمکن رہے۔ اس قلیل سی مدت میں جو آنکھ جھپکتے ہوئے گزر جاتی ہے ، اس مردِ خدا نے جس کو "عزم" کا سبق بھی اس کے مرشدِ کامل نے اسے یاد کرایا تھا، اس مردِ کامل نے دو سال ،چند مہینے اور چند دن کی قلیل مدت میں جتنے فتنے تھے ، سب مٹا کر رکھ دیے۔ نہ کوئی جھوٹا نبی باقی رہا ، نہ کوئی زکٰوۃ کا انکار کرنے والا باقی رہا ، جہاں جہاں اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا وہاں سارے کے سارے صدقِ دل سے نظامِ مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قبول کر رہے تھے اور اس پر عمل کر رہے تھے۔ یہ سب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عزم کا نتیجہ تھا

0 comments:

Post a Comment