Monday, 22 April 2013

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
 تیسرے نمبر(یادوسرے) پر جلیل المرتبۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا شرف حاصل کرنے والی

نام ونسب
عائشہ نام،صدیقہ اور حمیرا لقب ام عبداللہ کنیت ،افضل الناس بعد الانبیاء ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
آپ کے والد گرامی ہیں،والدہ کا نام زینب تھا ان کی کنیت ام رومان تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں

ولادت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چاربرس بعد شوال کے مہینے میں پیدا ہوئیں
صدیق اکبر ؓ کا کاشانہ وہ برج سعادت تھا جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پرتوفگن ہوئیں اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نےاپنے والد کو پہچانا مسلمان پایا(بخاری۔ج ۱ص۲۵۲)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں امہات المؤمنین میں سے ہر ایک کو منفرد شرف حاصل رہاہے چنانچہ
تمام ازواج مطہرات میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھیں۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت خولہؓ بنت حکیم کے ذریعے سے اپنی لاڈلی بیٹی کاعقد نکاح حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے طے کرایا
۵۰۰ سودرہم مہرقرارپایا۔ یہ نبوت کے 10 ویں سال کا واقعہ ہے۔اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھ سال تھی
یہ نکا ح اسلام کی سادگی کی حقیقی تصویرتھا۔ حضرت عطیہؓ اس کا واقعہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کھیل رہی تھیں ان کی انا آئی اوران کو لے گئی۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آ کرنکاح پڑھایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود کہتی ہیں کہ جب میرانکاح ہوا تومجھ کو خبر تک نہ ہوئی جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرانکاح ہوگیا،اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا
(طبقات ابن سعدج ۸ ص۴۰)


جہاد میں شرکت
غزوات میں غزوہ احد اور غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت کاپتہ چلتا ہےصحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اورزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں
(بخاری ج۲ص۵۸۱)

حلیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں رنگ سرخ وسفید تھا


علم اور فضل وکمال

علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف عورتوں پرنہ صرف دوسری امہات المؤمنین رضوان اللہ علیھن پرنہ صرف خاص خاص صحابیوں پربلکہ باستثنائے تمام صحابہ پر فوقیت حاصل تھی وہ علم کا دریا تھیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ
جامع ترمذی میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو کبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کو ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہواور ان کے پاس اس کے متعلق معلومات نہ ملی ہو
امام زہری جو مایہ ناز اور سرخیل تابعی ہیں فرماتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں بڑے بڑے اکابر صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ج۲قسم۲ص۲۶)
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے
میں نے قرآن فرائض، حلال وحرام فقہ، اسلامی شاعری،طب،عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا
اس کے علاوہ اور بہت سارے فضائل ہیں لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر صرف نظر کیا جا رہا ہے

اخلاق وعادات
اخلاقی حیثیت سے بھی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بلند مرتبہ کی مالکہ تھیں،وہ نہایت قانعہ تھیں غیبت سے کڑی نفرت کرتی تھیں،احسان کم قبول کرتیں تھیں،تکبر سے اعلان بیزاری کیا کرتی تھیں اور سب کو صفت کبر سے دور رہنے کی تلقین کرتی تھیں نہایت خوددار، باہمت، شجاعت، دلیری اورسخاوت کا عملی نمونہ تھیں
وصف سخاوت میں اپناثانی نہیں رکھتی تھیں،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا،ایک مرتبہ کاتب وحی حضرت امیرمعاویہ ؓ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہوتے سب خیرات کردیے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا لونڈی نے عرض کیا کہ افطارکے لیے کچھ نہیں ہےفرمایا پہلے سے کیوں یاد نہ دلایا
(مستدرک حاکم،ج ۴ص۱۳)

وفات وتدفین
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اخیر زمانہ خلافت تھا کہ رمضان ۵۵ یا۵۶ یا ۵۷ یا۵۸ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس دنیا سے رحلت فرمائی اس وقت ان کی عمر۶۴سال یا ۶۵ یا ۶۷ یا ۶۶ یا۶۸ سال میں ہوئی مہینے میں بھی اختلاف ہے کہ رمضان ہے یا شوال لیکن محقق قول ۵۸ ھ ماہ رمضان المبارک ہے
ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو کہ اس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینے کے گورنرتھے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجناز ہ رات کے وقت میں اٹھایا جائے اورمجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ ایساہی کیاگیا
اور ان کو قبر میں اتارنے والےحضرت قاسم بن محمدؓ،عبداللہ بن عبدالرحمنؓ،عبداللہ بن ابی عتیقؓ،عروہ بن زبیرؓاورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے

0 comments:

Post a Comment