Tuesday, 23 April 2013

ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
 دوسرے نمبر پر حرم نبی صلی اللہ علیہ وسلم بننے والی عظیم المرتبۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا

نام ونسب
سودہ نام ۔قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں جو قریش کا ایک نامورقبیلہ تھاسسلہ نسب یہ ہے
سودہ بنت زمعہ بن قیس بن شمس بن عبدودبن نصربن مالک بن حسل بن عامر بن لوی
والدہ کا نام شموس تھا۔یہ مدینہ کے خاندان بنو نجارسے تھیں ان کا پوار نام ونسب یوں ہے
شموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار۔

نکاح اول
سکران ؓبن عمرو سے جو ان کے والد کے چچا کے بیٹے تھے سے شادی ہوئی

قبول اسلام
ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی مسلمان ہوئے۔ اس بنا پر ان کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے
حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر مکہ میں مقیم رہے لیکن جب مشرکین کے ظلم وستم کی کوئی انتہا نہ رہی اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لیے آماد
ہ ہوئی تو اس میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہرؓ بھی شامل ہوگئےکئی برس حبشہ میں رہ کرمکہ واپس آئیں اور حضرت سکرانؓ نے کچھ دن کے بعدوفات پائی
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں حضرت سکرانؓ کی وفات کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت بنتی ہیں۔ ازواج مطہرات میں یہ فضیلت صرف حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے انتقال کے بعدسب سے پہلے وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال سے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان ومغموم تھے یہ حالت دیکھ کر حضرت خولہؓ بنت حکیم نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مونس رفیق کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھر بار بال بچوں کا انتظام سب خدیجہؓ کے متعلق تھا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء سےحضرت سودہؓ کے والد کے
پاس گئیں ۔اور نکاح کا پیغام سنایا،انھوں نے کہا محمد
صلی اللہ علیہ وسلم شریف کفو ہیں۔ لیکن سودہ سے بھی تودریافت کرو۔وہ تو سن کر بہت خوش ہوئیں اور تمام انتظامات ومراسم طے پاگئے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد نے نکاح پڑھایا اور چار سو درہم مہر قرار پایا
(بحوالہ۔زرقانی ج ۳ ص ۲۶۱)
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رمضان 10 نبوی میں ہوا اور چونکہ ان کے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا زمانہ قریب قریب تھا اس لیے مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے چنانچہ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو تقدم ہے اور عبداللہ بن محمدبن عقیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کو مقدم مانتے ہیں
(بحوالہ۔طبقات ابن سعدج ۸ص۳۶۔۳۷۔۳۸)

فضل وکمال
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے پانچ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے بخاری میں صرف ایک ہے۔ باقی حدیثیں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں
صحابہؓ میں حضرت ابن عباسؓ ۔ابن زبیرؓ،اور حضرت یحی بن عبدالرحمن نے ان سے روایت کی ہے

اخلاق،مناقب،اور فضائل

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی
اطاعت وفرمانبرداری میں وہ تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں۔آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میرے بعد گھرمیں بیٹھنا(بحوالہ۔زرقانی ج۳ص291)
چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس حکم پراس شدت سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے نہ نکلیں۔ فرماتی تھیں کہ میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں اوراب خداکے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی
(بحوالہ۔طبقات ج ۸ص۳۸)
سخاوت اور فیاضی میں بھی ان کا نمایاں کردار تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا اس وصف میں سب سے ممتاز تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عمرفاروقؓ نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی لانے والے سے پوچھا اس میں کیاہے؟ اس نے کہا در ہم اس پر بولیں کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں یہ کہہ کر اسی وقت سب کو تقسیم کردیا(بحوالہ۔اصابہ ج ۸ص ۱۱۸)

اولاد
آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ البۃ پہلے شوہر یعنی حضرت سکرانؓ سے ایک بیٹا یادگار چھوڑا جس کا نام حضرت عبدالرحمنؓ تھا ایک اچھے صحابی تھے انھوں نے جنگ جلولاء فارس میں جام شہادت نوش کی(بحوالہ۔زرقانی ج۲ص ۲۶۰)

وفات

ایک دفعہ ازواج مطہر ت آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں انھوں نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سب سے پہلے کون مریگا؟
فرمایا کہ جس کا ہاتھ سب سے بڑاہے۔ انھوں نے اس کا ظاہری معنی سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ ناپنے شروع کردیے۔ چنانچہ بڑا ہاتھ بھی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا۔۔لیکن حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ سخاوت کی طرف تھا یعنی جو آپ میں سے سب سے زیادہ سخی ہیں اس کا انتقال سب سے پہلے ہوگا
(بحوالہ۔طبقات ج۸ص۳۷)
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۲۲سن ھ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اخیر دور خلافت میں ہوئی۔ البۃ بعض روایت سن ھ ۲۳ کے بارے میں بھی ہیں۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ومشہورہےتاریخ خمیس میں بھی یہی روایت ہےاور اسی کو امام بخاری،ذہبی،جزری ابن عبدالبر اور خزرجی نے بھی اختیار کیاہے
(بحوالہ۔اسدالغابۃ واستیعاب وخلاصہ تہذیب حالات سودہؓ،زرقانی ج ۵ص ۲۶۳)

0 comments:

Post a Comment