Saturday, 20 April 2013

نام ونسب

ہندنام ام سلمہ کنیت قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے
ہند بنت ابی امیہ سہیل بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم
والدہ بنو فراس قبیلہ سے تھیں اور ان کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ عاتقہ بنت عامربن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض تھےسفر میں جاتے تو تمام قافلے والوں کی کفالت خود کرتے تھےاس لیے زادالراکب کے خوبصورت لقب سے مشہور تھے
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان ہی کی آغوش تربیت میں نہایت نازونعمت سے پرورش پائی

نکاح

عبداللہ بن عبدالاسد سے جو زیادہ ترابوسلمہ کے نام سے مشہور تھےاور جوحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
کے چچا زاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے
سے نکاح ہوا

اسلام

آغازنبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں

ہجرت حبشہ

اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حبشہ میں کچھ زمانہ تک ایام کرکے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی

ہجرت مدینہ کا سبق آموز واقعہ

ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز اورقابل رشک ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں ان کا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قبیلہ نے مزاحمت کی تھی
اس لیے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ان کو چھوڑ کرمدینہ چلے گئے تھےاور یہ اپنے گھر واپس آ گئیں تھیں ادھرسلمہ کو ابو سلمہ کے خاندان والے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے چھین لے گئے
اس لیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف میں اور اضافہ ہوگیا۔ چنانچہ روزانہ گھبرا کر گھر سے باہر نکل جاتیں اور ابطح(جگہ) میں بیٹھ کررویا کرتی تھیں سات آٹھ دن تک یہ حالت رہی اور خاندان کے لوگوں کو احساس تک نہ ہوا۔
ایک دن ابطح سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو روتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل بھر آیا۔ گھر آکر لوگوں سے کہا کہ اس غریب پر کیوں ظلم کررہے ہو اس کو جانے دو اور اس کا بچہ اس کے حوالے کردو۔ اس شخص کی یہ مخلصانہ کوشش کام آگئی چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جانے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ اپنے بچے کو گود میں لیکراونٹ پر سوار ہوگئیں اور مدینے کا راستہ لیا۔ چونکہ وہ بلکل تنہا تھیں یعنی کوئی مرد ساتھ نہ تھا
مقام تنعیم میں عثمان بن طلحہ(کلیدبرادرکعبہ)کی نظر پڑی بولنے لگے کدھر کا قصہ ہے؟
فرمایا مدینہ کا۔ پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے؟جو
اب فرمایا خدا اور یہ بچہ۔ عثمان نے کہا تم تنہا نہیں جا سکتیں میں لیکر چلوں گا یہ کہہ کر اونٹ کی پکڑی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر بیٹھنے کا کہا اور سفر شروع ہوگیا،راستہ میں جب کہیں ٹھہرتا تو اونٹ کو بٹھا کر کسی درخت کے نیچے چلا جاتا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اتر پڑتیں، روانگی کا وقت آتا تو اونٹ پرکجاوہ رکھ کر ہٹ جاتا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہتا سوارہو جاؤ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف النفس انسان کہیں نہیں دیکھا۔ بہر کیف مدینہ پہنچ گئے وہاں حضرت ام سلمہ اپنے شوہرکے پاس چلی گئیں اور عثمان مکہ کی طرف روانہ ہوا

وفات حضرت ابوسلمہ اورنکاح ثانی

کچھ زمانہ تک شوہرکا ساتھ رہا۔ حضرت ابو سلمہ
رضی اللہ عنہ بڑے شہ سوار تھے
بدر اور احد میں شریک ہوئے غزوہ احد میں چند زخم کھائے جن کے صدمے سے جانبرنہ ہوسکے۔ چنانچہ سن ھ ۴ جمادی الثانی میں زخموں کی تاب نہ لاکر راہی راہ وفا ہو گئے (مسندابن حنبل ج6ص ۳۰۷)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد عدت گذارنے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لیکر حاضر ہوئے
اس پرحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا
مجھے کچھ عذر ہیں
(۱)میں سخت غیورعورت ہوں
(۲)صاحب عیال ہوں
(۳) میری عمرزیادہ ہے۔
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تمام اعذار خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرمائے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹےعمر سے کہا
حضورصلی اللہ علیہ وسلام سے میرا نکاح کرو
(سنن نسائی ص۵۱۱)
شوال سن ھ ۴ کی اخیر میں یہ تقریب انجام پائی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کواپنے شوہر حضرت ابوسلمہ
رضی اللہ عنہ کی جدائی کی وجہ سے جو صدمہ پہنچا تھا اللہ قدوس نے اس کو ابدی مسرت سے تبدیل کردیا

اولاد

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہرسے جواولاد ہوئی ان کی تعداس تین ہے دوبیٹے ایک بیٹی
(۱)سلمہ رض(۲)عمر رض(۳)زینب رض(بحوالہ۔صحیح بخاری ج ۲ص ۷۶۴)

فضل وکمال

علمی حیثیت میں اگر چہ تمام ازواج مطہرات بلندمرتبہ تھیں تاہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ان میں کوئی جواب نہ تھا(زرقانی ج ۳ ص ۲۷۳)

اخلاق وعادات

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نہایت زاہدانہ زندگی بسرکرتی تھیں ایک مرتبہ ایک ہار پہنا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراض کیا تو اس کو اسی وقت توڑ ڈالا
(مسنداحمدج6ص۳۱۵)
ہر مہینے میں تین دن پیر،جمعرات،اور جمعہ کا روزہ رکھتی تھیں،ہروقت ثواب کی تلاش میں رہتی تھیں سخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں اس کے علاوہ کئی صفات کاجامع تھیں
مسنداحمدج6ص۲۸۹)

وفات

جس سال حرہ کا واقعہ ہوا یعنی 63ھ میں اسی سال حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر۸۴ برس تھی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں
(زرقانی ج۳ص376)

0 comments:

Post a Comment