آخری خواہش
چاند کی چودہ تاریخ تھی، رات
اپنی سیاہی کو پھیلانے میں ناکام ہو چکی تھی، اور چاند اپنے شباب کی شوخیوں
کو لئے بادلوں سے اٹکھلیاں کرتا ہوا میٹھی میٹھی روشنی کو چاروں طرف بکھیر
رہا تھا۔ دیو قامت پہاڑ کے پہلو میں انتہائی کمزور اور لاغر جسم کا بوڑھا
شخص جو لگ بھگ اسّی سال کی عمر کا تھا، اپنے محبت بھرے انداز میں چاند کو
شرمندہ کر رہا تھا۔ اُس کے سامنے ایک باسی روٹی پڑی تھی اور کندھے کے ساتھ
ایک بندوق سہارا لئے کھڑی تھی۔ بوڑھے کی اس کیفیت کو دیکھ کر دل سوچنے پر
مجبور تھا کہ یہ بندوق بوڑھے شخص نے سہارا لینے کے لئے رکھی ہے نہ کہ چلانے
کے لئے۔ دوسری طرف ایک بڑھیا انتہائی کمزور، سفید بال اور چہرہ وقت کے
نشیب و فراز کی دلدل میں ڈوبا ہوا۔
بوڑھا شخص اُس کی آنکھوں میں ڈوبا تھا۔ (جیسے سمندر میں سیپ کے منہ سے موتی تلاش کرنا چاہتا ہو) پھر ایک لرزتی ہوئی آواز گونجی:
“اسے تم کھا لو!“
اور جواب ملا:
“نہیں! اسے تم کھا لو“
پھر ایک خاموشی چھا گئی۔
آخر بوڑھا شخص بولا:
“دیکھو! تم دو دن سے بھوکی ہو اسے کھا لو“
بوڑھی عورت نے جواب دیا:
“جیسے تم تو دعوت خاص کھا کر آرہے ہو، تم بھی تو دو دن سے بھوکے ہو، اسے تم کھا لو“
بوڑھا مُسکرایا اور بولا:
“تمہاری جوانی کی روٹھنے کی عادت نہیں گئی“
بوڑھیا بولی:
“تم بھی اپنی جوانی کی عادت کیوں بھول رہے ہو؟ آج بھی تعریفیں کر کے مجھے منا لو“
بوڑھا شخص نظر اُٹھا کر چاند کی طرف دیکھنے لگا۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ گولی کی آواز سنائی دی۔ بوڑھے شخص نے لڑکھڑاتی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آخر وہ پاس پڑے ایک پتھر کے سہارے کھڑا ہوا۔ اس کی ٹانگیں کمزوری کی وجہ سے کانپ رہی تھیں، سانس پھول گیا تھا۔ اس نے بندوق سے نشانہ لگانے کے لئے اسے سیدھا کرنا چاہا مگر اُس کے بوڑھے بازؤں نے اُس کی مدد نہ کی۔ پھر وہ لیٹ گیا اور بندوق کو زمین پر رکھ کر آنے والی مصیبت کا انتظار کرنے لگا۔ بڑھیا اُس کو کھینچ کر پتھر کے پیچھے چُھپانا چاہتی تھی۔ مگر وہ ناکام ہو رہی تھی۔کیوں کہ بوڑھا چُھپنا نہیں چاہتا تھا بلکہ مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ اتنے میں بوڑھے کو احساس ہوا کہ بندوق میں گولیاں تو ہیں ہی نہیں۔ وہ فوری طور پر اُٹھا اور اپنے ارد گرد گولیاں تلاش کرنے لگا۔ بڑھیا اس کی مدد کر رہی تھی۔ انتہائی تگ و دو کے بعد اسے ایک گولی مل گئی۔ اس نے ایک گولی ہی بندوق میں بَھری اور دُشمن کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
اب ماحول پر سنّاٹا چھا گیا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد بُڑھیا بولی:
“تم تو شاید مجھے مَنانا چاہتے تھے“
بوڑھا مُسکرایا اور بولا:
“تجھے اپنی تعریف سُننا بہت اچھا لگتا ہے؟“
بُڑھیا بولی:
“ہاں! مگر اُس وقت جب تعریفیں تم کر رہے ہو، کیوں کہ جب تم تعریف کرتے ہو تو مجھے اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ کائنات میں میرا بھی وجود ہے۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی محبت ہے تو پھر میری بات کیوں نہیں مانتے؟ چھوڑو اس وادی کو، ہم بارڈر کراس کر لیتے ہیں، ہم بوڑھے ہیں، نہ کوئی ہمیں روکے گا، نہ کوئی شک کرے گا۔ تم کیوں اپنی جان مصیبت میں ڈال رہے ہو؟ہماری پچاس ساٹھ برس کی محبت کا انجام بھی تو بہت اچھا ہونا چاہیئے۔ اور تمہارے پاس تو اب ہے بھی صرف ایک گولی، تم اس ایک گولی سے کیا کرو گے؟ دشمن تو بہت بڑا ہے۔“
بوڑھا یہ سُن کر غصّے سے سُرخ ہو گیا۔ اور بولا:
“جاننا چاہتی ہو میں تم سے محبت کیوں کرتا ہوں؟ تو سُنو! تمہاری آنکھیں میرے وطن کی جھیل جیسی گہری ہیں نہ کہ میرے وطن کی جھیل تمہاری آنکھوں جیسی۔ تمہاری مُسکراہٹ وطن کی بہار جیسی ہے نہ کہ وطن کی بہار تمہاری مُسکراہٹ جیسی۔۔۔ میں اس لئے تم پر قربان ہوں گا۔۔ لیکن اس سے پہلے میں ہزاروں مرتبہ اپنے وطن کے لئے قربان ہوں گا۔ اس لئے مِری خواہش ہے کہ یہ آخری گولی بھی میرے دُشمن کے سینے میں اُتر جائے۔ کم از کم میرے ہوتے ہوئے کوئی میرے محبوب پر آنکھ اُٹھائے اور میں مقابلہ نہ کروں ممکن ہی نہیں“
بوڑھے کی لرزتی ہوئی بلند آواز اس سنّاٹے کو چاک کرتی ہوئی دور نکل گئی، اور پاس ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اِرد گِرد کی بے جان چیزیں اِسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوں، اور اپنی تمام قوتیں اس میں بھر دینا چاہتی ہوں۔ کچھ دیر بعد چند فوجی سامنے سے نمودار ہوئے، بوڑھے نے اپنے لاغر جسم اور جواں جذبے سے ٹریگر دبا دیا، ایک فوجی زمین پر گِر گیا۔ اس سے پہلے کہ بوڑھا شخص کچھ اور کر پاتا، ایک گولی نے ان جوں جذبوں کو اس لاغر جسم سے آزاد کر دیا۔
اس کے ساتھ ہی بڑھیا کی آواز فضاء میں گونجی:
“میرے محبوب کی آخری خواہش پوری ہو گئی! آخری خواہش!!!!!!“
بوڑھا شخص اُس کی آنکھوں میں ڈوبا تھا۔ (جیسے سمندر میں سیپ کے منہ سے موتی تلاش کرنا چاہتا ہو) پھر ایک لرزتی ہوئی آواز گونجی:
“اسے تم کھا لو!“
اور جواب ملا:
“نہیں! اسے تم کھا لو“
پھر ایک خاموشی چھا گئی۔
آخر بوڑھا شخص بولا:
“دیکھو! تم دو دن سے بھوکی ہو اسے کھا لو“
بوڑھی عورت نے جواب دیا:
“جیسے تم تو دعوت خاص کھا کر آرہے ہو، تم بھی تو دو دن سے بھوکے ہو، اسے تم کھا لو“
بوڑھا مُسکرایا اور بولا:
“تمہاری جوانی کی روٹھنے کی عادت نہیں گئی“
بوڑھیا بولی:
“تم بھی اپنی جوانی کی عادت کیوں بھول رہے ہو؟ آج بھی تعریفیں کر کے مجھے منا لو“
بوڑھا شخص نظر اُٹھا کر چاند کی طرف دیکھنے لگا۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ گولی کی آواز سنائی دی۔ بوڑھے شخص نے لڑکھڑاتی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آخر وہ پاس پڑے ایک پتھر کے سہارے کھڑا ہوا۔ اس کی ٹانگیں کمزوری کی وجہ سے کانپ رہی تھیں، سانس پھول گیا تھا۔ اس نے بندوق سے نشانہ لگانے کے لئے اسے سیدھا کرنا چاہا مگر اُس کے بوڑھے بازؤں نے اُس کی مدد نہ کی۔ پھر وہ لیٹ گیا اور بندوق کو زمین پر رکھ کر آنے والی مصیبت کا انتظار کرنے لگا۔ بڑھیا اُس کو کھینچ کر پتھر کے پیچھے چُھپانا چاہتی تھی۔ مگر وہ ناکام ہو رہی تھی۔کیوں کہ بوڑھا چُھپنا نہیں چاہتا تھا بلکہ مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ اتنے میں بوڑھے کو احساس ہوا کہ بندوق میں گولیاں تو ہیں ہی نہیں۔ وہ فوری طور پر اُٹھا اور اپنے ارد گرد گولیاں تلاش کرنے لگا۔ بڑھیا اس کی مدد کر رہی تھی۔ انتہائی تگ و دو کے بعد اسے ایک گولی مل گئی۔ اس نے ایک گولی ہی بندوق میں بَھری اور دُشمن کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
اب ماحول پر سنّاٹا چھا گیا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد بُڑھیا بولی:
“تم تو شاید مجھے مَنانا چاہتے تھے“
بوڑھا مُسکرایا اور بولا:
“تجھے اپنی تعریف سُننا بہت اچھا لگتا ہے؟“
بُڑھیا بولی:
“ہاں! مگر اُس وقت جب تعریفیں تم کر رہے ہو، کیوں کہ جب تم تعریف کرتے ہو تو مجھے اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ کائنات میں میرا بھی وجود ہے۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی محبت ہے تو پھر میری بات کیوں نہیں مانتے؟ چھوڑو اس وادی کو، ہم بارڈر کراس کر لیتے ہیں، ہم بوڑھے ہیں، نہ کوئی ہمیں روکے گا، نہ کوئی شک کرے گا۔ تم کیوں اپنی جان مصیبت میں ڈال رہے ہو؟ہماری پچاس ساٹھ برس کی محبت کا انجام بھی تو بہت اچھا ہونا چاہیئے۔ اور تمہارے پاس تو اب ہے بھی صرف ایک گولی، تم اس ایک گولی سے کیا کرو گے؟ دشمن تو بہت بڑا ہے۔“
بوڑھا یہ سُن کر غصّے سے سُرخ ہو گیا۔ اور بولا:
“جاننا چاہتی ہو میں تم سے محبت کیوں کرتا ہوں؟ تو سُنو! تمہاری آنکھیں میرے وطن کی جھیل جیسی گہری ہیں نہ کہ میرے وطن کی جھیل تمہاری آنکھوں جیسی۔ تمہاری مُسکراہٹ وطن کی بہار جیسی ہے نہ کہ وطن کی بہار تمہاری مُسکراہٹ جیسی۔۔۔ میں اس لئے تم پر قربان ہوں گا۔۔ لیکن اس سے پہلے میں ہزاروں مرتبہ اپنے وطن کے لئے قربان ہوں گا۔ اس لئے مِری خواہش ہے کہ یہ آخری گولی بھی میرے دُشمن کے سینے میں اُتر جائے۔ کم از کم میرے ہوتے ہوئے کوئی میرے محبوب پر آنکھ اُٹھائے اور میں مقابلہ نہ کروں ممکن ہی نہیں“
بوڑھے کی لرزتی ہوئی بلند آواز اس سنّاٹے کو چاک کرتی ہوئی دور نکل گئی، اور پاس ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اِرد گِرد کی بے جان چیزیں اِسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوں، اور اپنی تمام قوتیں اس میں بھر دینا چاہتی ہوں۔ کچھ دیر بعد چند فوجی سامنے سے نمودار ہوئے، بوڑھے نے اپنے لاغر جسم اور جواں جذبے سے ٹریگر دبا دیا، ایک فوجی زمین پر گِر گیا۔ اس سے پہلے کہ بوڑھا شخص کچھ اور کر پاتا، ایک گولی نے ان جوں جذبوں کو اس لاغر جسم سے آزاد کر دیا۔
اس کے ساتھ ہی بڑھیا کی آواز فضاء میں گونجی:
“میرے محبوب کی آخری خواہش پوری ہو گئی! آخری خواہش!!!!!!“
0 comments:
Post a Comment