ہمارے
اسکول کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک نئی لڑکی نے ہماری
کلاس میں داخلہ لیا- میں نے اسے تھوڑی دیر کے لئے دیکھا- اسکی آنکھیں سمندر
کی طرح نیلی تھیں اور اسکا رنگ اتنا سفید تھا جیسے برف- لیکن اس کے باوجود
کوئی بھی اس کا دوست بننے کو تیار نہ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کے اس کے
بال نہیں تھے کیونکہ وہ کینسر کی مریض تھی-
کلاس
میں ہر بچہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا- کوئی اس پر ہنس رہا تھا اور
کوئی اس کا مذاق بنا رہا تھا- میں محسوس کرسکتی تھی کہ اسے کتنا برا محسوس
ہو رہا ہوگا کیونکہ میری بھی کوئی دوست نہیں تھی- میں نہ اس پر ہنسی اور نہ
ہی ویسا برتاؤ کیا جیسا سب اس کے ساتھ کر رہے تھے- جب میں اٹھی اور اس سے
بات کرنے کے لئے گئ تو سب بچے مجھے بھی ایسے ہی دیکھنے لگے جیسے اسے دیکھ
رہے تھے- اس کا نام زارا تھا اور وہ بھی باقی بچوں کی طرح بالکل نارمل تھی-
کچھ ہی دنوں میں میری اس سے بہت اچھی دوستی ہوگئی- ہم دونوں کی باتیں اور
خیالات میں بہت کچھ ایک جیسا تھا- پم روزانہ ہی کہیں گھومنے پھرنے چلے جاتے
تھے اور بہت لطف اندوز ہوتے تھے- ہم ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور
بہنوں کی طرح رہتے تھے-
ایک
دن بہت ہمت کرنے کے بعد میں نے زارا سے اس کی بیماری کے متعلق پوچھا- اس
نے مجھے بتایا کہ اب سب بہتر ہوگیا ہے اور رہ بالکل ٹھیک ہے- مجھے یہ سن کر
بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس کی بات کا فورا یقین کرلیا-
ایک
رات بہت تیز بارش ہو رہی تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا آسمان سے پتھر
برس رہے ہوں- تقریبا رات کے آٹھ بج رہے تھے جب مجھے ایک فون کال موصول
ہوئی، وہ میری زندگی کی سب سے خوفناک فون کال تھی جسے سننے کے بعد میں خوف
اور غم سے کانپ رہی تھی- یہ فون کال زارا کے ابو کی تھی انھوں نے بتایا کہ
زارا ہسپتال میں ہے اور اس کی حالت بہت خراب ہے- مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا
کہ اس حال میں آخر میں کیا کروں- میں نے یہ بات اپنے ابو کو بتائی اور پھر
بڑی مشکل سے آخر ہم ہسپتال پہنچ گئے جہاں میں نے زارا کو بہت بری حالت میں
ایک بستر پر پایا- میں خود پر قابو نہ کرسکی اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے
لگے- میں اس کے برابر میں جا کر بیٹھ گئی، اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
اور بے اختیار رونے لگی- میں تو کتنا خوش تھی جب زارا نے خود مجھے بتایا
تھا کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہوگئی ہے- مجھے تو اندازہ بھی نہ تھا کہ کچھ دن
بعد میں اُسے اس حال میں پاؤں گی- میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی اور کہا
کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی اور تھوڑے ہی دن میں سب بہتر ہو جائے گا- ہر روز
میں اُس سے ملنے ہسپتال جاتی اور اسے دیکھ کہ بہت روتی اور اسے یقین دلاتی
کہ یہ سب وقتی پریشانی ہے اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کر دیں گے اور وہ جلد
صحتیاب ہو جائے گی اور پھر ہم اُسی طرح روز گھومنے جایا کریں گے- میں اکیلے
میں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر گڑ گڑا کر اس کے ٹھیک ہونے کی دعائیں مانگتی
اور پھر مجھے اک عجیب سا اطمینان محسوس ہوتا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ اللہ
پاک کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا کر میری دوست کو ٹھیک کر دیں گے-
ایک
دن میں زارا کے پاس ہسپتال میں ہی تھی کہ اس کی طبیعت اچانک خراب ہونا
شروع ہوئی- میں گئی اور جا کر ڈاکٹر کو بلا لائی- مجھے لگا جیسے میری سانس
آنا بند ہوگئی جب میں نے ڈاکٹر سے یہ سنا کہ زارا اپنی زندگی کی آخری
سانسیں لے رہی ہے- میرا دل ٹوٹ چکا تھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے
دل نے کام کرنا بند کر دیا ہو- لیکن اس وقت بھی مجھے اک امید تھی، مجھے
بھروسہ تھا کہ اللہ پاک اپنا معجزہ ضرور دکھائیں گے- میں نے اللہ پاک سے رو
رو کے زارا کے لئے بہت دعائیں مانگیں- پھر بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ میں
اس کمرے میں گئی جہاں اسے لے جایا گیا تھا- وہ وہاں نڈھال پڑی تھی اور اس
کی آنکھیں بند تھیں- میں اس کے برابر میں جا کر بیٹھ گئی، اس کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لیا اور اس سے کہا کہ تم میری واحد دوست ہو- تم نے ہر حال میں
میری مدد کی اور مجھے دکھایا کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے- تم نے مجھے سکھایا
کہ کس طرح مسکرایا جاتا ہے، کس طرح خوش رہا جاتا ہے اور کس طرح زندگی کو
جیا جاتا ہے- تم مجھے چھوڑ کے مت جاؤ، میری مسکراہٹ مجھ سے مت چھینو- اور
سچ پوچھو تو میرا دل اب بھی یہ کہتا ہے کہ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ
تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندگی دے گا- میری تمہارے حق میں مانگی گئی دعائیں
رائیگاں نہیں جائینگی- پھر اچانک زارا نے ایک گہرا سانس لیا اور آہستہ
آہستہ اپنی آنکھیں کھول دیں- اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا- مجھے لگا
جیسے اللہ نے میری دعائیں سن لیں اور ہماری آزمائش اب ختم ہوئی- میں نے
ڈاکٹر کو بلایا اور انھوں نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ یہ ایک معجزہ ہے- اللہ
پاک نے زارا کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہے- یہ سن
کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میری دوست کی زندگی کا ڈوبتا ہوا
سورج پھر سے ابھر آیا تھا- میں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور زارا کو
دیکھنے لگی-
کچھ
مہینے بعد ہم پھر سے اسکول جانے لگے- اب زارا کے بال بھی واپس اُگ آئے
تھے- ہمارے اسکول کے باقی بچے بھی اب ہم سے بات کرنے لگے تھے- ہم بہت زیادہ
خوش تھے جیسے ہمیں کوئی بہت بڑا انعام مل گیا ہو- لیکن سچ پوچھو تو ہمارے
لئے سب سے بڑا انعام تو یہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تھے-
0 comments:
Post a Comment