باب : بعض ظلم بعض سے ادنیٰ ہیں
بخاری شریف جلد نمبر 1
حدیث نمبر : 32
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، ح. قال وحدثني بشر، قال حدثنا محمد، عن شعبة، عن سليمان، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال لما نزلت {الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم} قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أينا لم يظلم فأنزل الله {إن الشرك لظلم عظيم}.
ہمارے سامنے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ( اسی حدیث کو ) بشر نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے شعبہ نے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب سورہ انعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورہ لقمان کی یہ آیت اتاری کہ بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔
تشریح : پوری آیت میں بظلم کے آگے اولئک لہم الامن وہم مہتدون کے الفاظ اور ہیں یعنی امن ان ہی کے لیے ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔معلوم ہوا کہ جو مؤحد ہوگا اسے ضرور امن ملے گا گوکتنا ہی گنہگار ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں پر بالکل عذاب نہ ہوگا جیسا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ حدیث اور آیت سے ترجمہ باب نکل آیا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ سے کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں ظالم کا لفظ شرک و کفرو معاصی سب ہی پر عام تھا۔ اسی لیے ان کو اشکال پیدا ہوا۔ جس پر آیت کریمہ سورۃ لقمان والی نازل ہوئی اور بتلایاگیا کہ پچھلی آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ ظلم عظیم یعنی شرک کا اختلاط نہ کیا۔ ان کے لیے امن ہے۔ یہاں ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
بخاری شریف جلد نمبر 1
حدیث نمبر : 32
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، ح. قال وحدثني بشر، قال حدثنا محمد، عن شعبة، عن سليمان، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال لما نزلت {الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم} قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أينا لم يظلم فأنزل الله {إن الشرك لظلم عظيم}.
ہمارے سامنے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ( اسی حدیث کو ) بشر نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے شعبہ نے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب سورہ انعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورہ لقمان کی یہ آیت اتاری کہ بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔
تشریح : پوری آیت میں بظلم کے آگے اولئک لہم الامن وہم مہتدون کے الفاظ اور ہیں یعنی امن ان ہی کے لیے ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔معلوم ہوا کہ جو مؤحد ہوگا اسے ضرور امن ملے گا گوکتنا ہی گنہگار ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں پر بالکل عذاب نہ ہوگا جیسا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ حدیث اور آیت سے ترجمہ باب نکل آیا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ سے کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں ظالم کا لفظ شرک و کفرو معاصی سب ہی پر عام تھا۔ اسی لیے ان کو اشکال پیدا ہوا۔ جس پر آیت کریمہ سورۃ لقمان والی نازل ہوئی اور بتلایاگیا کہ پچھلی آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ ظلم عظیم یعنی شرک کا اختلاط نہ کیا۔ ان کے لیے امن ہے۔ یہاں ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
0 comments:
Post a Comment