برکات نبوت کا ظہور
جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی، صبح صادق کی
سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب
رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تو اطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب
عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات
کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری
آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔
چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے
سر زمین عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دفع ہو کر
پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا،
فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ
جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ، اور اس کے چودہ کنگوروں کا منہدم ہو جانا، ’’
ہمدان ‘‘ اور ’’ قم ‘‘ کے درمیان چھ میل لمبے چھ میل چوڑے ’’ بحرۂ ساوہ ‘‘
کا یکایک بالکل خشک ہو جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ’’ سماوہ ‘‘ کی
خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ
کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ’’ بصریٰ ‘‘ کے محل روشن ہو گئے۔ یہ
سب واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ الصلوات والتسلیمات کی
تشریف آوری سے پہلے ہی ’’ مبشرات ‘‘ بن کر عالم کائنات کو یہ خوشخبری دینے
لگے کہ
مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہرآنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
حضرات
انبیاء کرام علیہم السلام سے قبل اعلان نبوت جو خلاف
عادت اور عقل کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات صادر ہوتے ہیں ان کو شریعت کی
اصطلاح میں ’’ارہاص‘‘ کہتے ہیں اور اعلان نبوت کے بعد انہی کو ’’معجزہ‘‘
کہا جاتا ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام واقعات ’’ارہاص‘‘ ہیں جو
حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کرنے سے قبل ظاہر ہوئے
جن کو ہم نے ’’برکات نبوت‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے۔
اس قسم کے واقعات جو ’’ارہاص‘‘ کہلاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں سے چند کا ذکر ہو چکا ہے چند دوسرے واقعات بھی پڑھ لیجئے۔
اس قسم کے واقعات جو ’’ارہاص‘‘ کہلاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں سے چند کا ذکر ہو چکا ہے چند دوسرے واقعات بھی پڑھ لیجئے۔
{۱}
محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نورِ نبوت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مقدس میں منتقل ہوا ، روئے زمین کے تمام چوپایوں، خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ عزوجل کاوہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے اور جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔ اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آ گیا۔
(زرقانی علی المواهب ج ۱ ص ۱۰۸)
محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نورِ نبوت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مقدس میں منتقل ہوا ، روئے زمین کے تمام چوپایوں، خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ عزوجل کاوہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے اور جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔ اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آ گیا۔
(زرقانی علی المواهب ج ۱ ص ۱۰۸)
0 comments:
Post a Comment