Monday 13 May 2013

الم
 قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماء تدل علی عظمۃ المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورۃ الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداء اس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام۔ ۔ ۔ اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔

مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلۃ ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاء بھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاء ہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفایابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاء و سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناء پر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاء کردیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسأل یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاء کردیا ہے۔


سورہ بقرہ
پہلے پارہ کی ابتداء سورہ بقرہ سے ہوتی ہے۔ بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرم کی نشاندہی معجزانہ طریقہ پر کی گئی تھی، جو بنی اسرائیل کے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔ اس سورت میں دوسرے مضامین کے علاوہ زیادہ تر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے دلوں میں اسلام کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اس معجزانہ واقعہ کی طرف اشارہ کے طور پر پوری سورت کو بقرہ سے موسوم کردیا گیا۔ سورہ بقرہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے جس میں متنوع اور مختلف مضامین کا بیان ہے۔ حروف مقطعات سے سورت کی ابتداء کرکے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قرآنی علوم و معارف سے استفادہ کے لئے اپنی جہالت اور کم علمی کا اعتراف اور علمی پندار کی نفی پہلا زینہ ہے، کلام الٰہی پر غیر متزلزل یقین اور اسے ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھنا دوسرا زینہ ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی وہ قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کررہے ہیں۔
ابتدائی بیس آیتوں میں انسان کی تین قسموں کا بیان ہے: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی نظام کے تابع لانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں، وہ اپنی زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طور پر قرآنی نظام کے منکر ہیں مگر ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ قرآن کریم کو ماننے میں اگر کوئی مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر اس سے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کا انکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے، اسے منافقت کہتے ہیں۔ منافقت کے ذریعہ انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر دلوں کے بھید جاننے والے اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ اصلاح کے نام پر دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور قرآنی نظام کے وفادار اہلِ ایمان کو عقل و دانش سے محروم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود شعور و آگہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں۔ یہ لوگ ہدایت و روشن خیالی کے مقابلہ میں تاریک خیالی اور گمراہی کی تجارت کررہے ہیں اور یہ بڑے خسارہ کا کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے دو مثالوںکے ذریعہ منافقت کی دو قسموں کو واضح کیا ہے۔
۱: کسی شخص نے ٹھٹھرتی، اندھیری رات میں سردی سے بچنے اور روشنی حاصل کرنے کے لئے آگ جلائی اور جیسے ہی چاروں طرف روشنی پھیلی تو وہ آگ ایک دم بجھ گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔
۲: رات کے وقت اندھیرے کے اندر کھلے میدان میں موسلادھار بارش میں کچھ لوگ پھنس کر رہ گئے، بجلی کی کڑک ان کے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہو اور چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں اور اس ناگہانی آفت سے وہ موت کے ڈرسے کانوں میں انگلیاں ٹھوسے ہوئے ہوں۔ بجلی کی چمک سے انہیں راستہ دکھائی دینے لگے مگر جیسے ہی وہ چلنے کا ارادہ کریں تو اندھیرا چھا جائے اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں کیونکہ آیات خداوندی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
اس کے بعد انسانیت سے پہلا خطاب کیا گیا اور ایک وحدہ لاشریک لہ رب کی عبادت کا پہلا حکم دیا گیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کو عدم سے وجود بخشنا اور اس کی زندگی کی گزر بسر کے لئے آسمان و زمین کی تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی بشر ہو۔ ایسا کلام بنا کر دکھا دو ورنہ جہنم کا ایندھن بننے کے لئے تیار ہوجائو۔ قرآن کریم کی ایک سورت بلکہ ایک آیت بنانے سے بھی عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ محمد علیہ السلام کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لئے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزا اور اس کے ماننے والوں کے لئے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کا تذکرہ ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے، انسانی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی بھی اسلوب بیان اپنا سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور کی مثال دے سکتا ہے، مسئلہ مثال کا نہیں اس سے حاصل ہونے والے مقصد کا ہے۔
تخلیق انسانی کی ابتداء کا تذکرہ آیت نمبر ۳۰ سے ۳۹ تک ۹ آیتوں میں ہے۔ انسان اس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے اور اس کی وجہ انسان کا حصول علم کی صلاحیت رکھنا ہے۔ انسانی بلندی و عظمت کی بنا پر اسے سجود ملائک بنایا گیا۔ ناپاک نطفہ سے تخلیق دے کر عظمت و بلندی کے تمام مراحل آناً فاناً طے کراکے اسے سجود ملائک بنادیا۔ پستی سے عظمت کے بام عروج تک پہنچا دیا۔ آدم سے حوا کی پیدائش سے نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر ایک انسان سے دوسرا انسان پیدا کرنے (CLOAN) کا امکان ثابت ہوسکتا ہے بلکہ آدم کی مٹی سے تخلیق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس مٹی سے سبزیوں اور پھلوںکی شکل میں ’’مادہ حیات‘‘ انسانوںمیں منتقل ہوتا ہے اس سے براہِ راست وہ مادہ لے کر بھی انسان کو وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ انسان اس سرزمین پر بطور سزا نہیں بلکہ بطور امتحان بھیجا گیا ہے۔ قرآن کریم کی شکل میں آسمانی ہدایت کی پیروی اس کی کامیابی کی علامت اور اس کی مخالفت اور کفر اس کی ناکامی و نامرادی کی علامت قرار دی گئی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے جو آیت نمبر ۴۰ سے شروع ہوکر نمبر ۱۲۳ تک ۱۸۳ آیات پر مشتمل ہے۔ بنی اسرائیل دنیا کی ایک منتخب قوم تھی۔ انبیاء کی اولاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دور کی سیاسی اور مذہبی قیادت و سیادت سے نوازا ہوا تھا مگر ان کی نا اہلی اور اپنے منصب کے منافی حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معزول کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اس منصب کے اہل او رحقیقی وارث امت محمدیہ کی شکل میں اس سرزمین پر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً آدھے سیپارے پر محیط اس قوم کے جرائم اور عادات بد کی ایک طویل فہرست ہے جو چالیس نکات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ ’’فرد جرم‘‘ ہے جو بنی اسرائیل کے اس منصب عالی سے معزولی کا سبب ہے۔ آیت نمبر ۴۰ سے نمبر۴۶ تک سات آیتوں میں ان ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کو سونپی گئی تھیں۔ انعامات خداوندی کا استحضار، عہد الٰہی کی پاسداری، خوفِ خدا، تقویٰ، آسمانی تعلیمات پر یقین کامل، اپنے مفادات کو دین کا تابع بنا کر زندگی گزارنے کی تلقین، حق و باطل کو خلط ملط کرنے کی بجائے حق کی پیروی اور باطل سے دوٹوک انداز میں برأت کا اظہار، نماز کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ سے اپنی وفاداری کا اظہار اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعہ غرباء و مساکین سے تعاون، خیر اور شر میں تمیز کرکے نیکی پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کو نیکی کی تلقین اور آسمانی تعلیمات کی روشنی میں عقل و دانش کا استعمال، بنی اسرائیل ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی تفصیل ۷۶ آیتوں میں مذکور ہے۔
بنی اسرائیل کو دریا میں معجزانہ طریقہ پر راستہ بنا کر فرعونی مظالم سے نجات دی۔ دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کیا، موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کے لئے چالیس دن کے لئے کوہ طور پر بلایا تو یہ لوگ بچھڑے کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ اس مشرکانہ حرکت پر سزا کے طور پر انہیں باہمی قتل کا حکم دے کر ان کی توبہ قبول کی گئی۔ ان کے بے جا مطالبے پورے کئے۔ اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور بالمشافہہ ملاقات کرائی گئی مگر یہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ تیہ کے چٹیل اور کھلے میدان میں انہیں بادل کے ذریعہ سایہ اور ’’من و سلویٰ‘‘ کی شکل میں کھانا فراہم کیا گیا مگر انہوںنے اس نعمت کی قدر نہ کی۔ پتھر سے معجزانہ طریقہ پر بارہ چشمے جاری کرکے ان کے بارہ خاندانوں کے سیراب کرنے کا انتظام کیا گیا مگر یہ سرزمین پر فساد پھیلانے سے باز نہ آئے۔ اللہ کی عظیم الشان نعمتوں کے مقابلہ میں لہسن پیاز اور دال روٹی کا مطالبہ کرکے ذہنی پستی اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا۔ اللہ کے احکام کا کفر کرنے اور انبیاء علیہم السلام (اپنے مذہبی پیشوائوں) کو قتل کرنے کے عظیم جرم کا ارتکاب کیا، جس پر انہیں ذلت و رسوائی اور غضبِ خداوندی کا مستحق قرار دیا گیا۔ قرآنی ضابطہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیابی قومی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر ملتی ہے، خوف اور غم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کرکے تجدید عہد کرایا گیا، مگر انہوں نے اس کی پاسداری نہ کی۔ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لئے ہفتہ کے دن کی چھٹی دی گئی ، مگر اس کی پابندی نہ کرنے پر عبرتناک انجام کے مستحق ٹھہرے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر ذلیل و قابل نفرت بندر بنادیا گیا۔
سورہ جرم و سزا اور سراغ رسانی کا انوکھا واقعہ
بنی اسرائیل میں ایک شخص بے اولاد تھا۔ وراثت حاصل کرنے کے لئے اس کے بھتیجے نے اسے قتل کرکے دوسروں پر الزام لگایا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قاتل کا پتہ چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بڑی پس و پیش کے بعد یہ لوگ ذبح پر آمادہ ہوئے۔ گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا جب میت کے جسم سے لگایا گیا تو وہ زندہ ہوگیا اور اپنے قاتل کا نام بتاکر پھر مرگیا۔ اس طرح اصل مجرم گرفت میں آگیا اور سزا کا مستحق قرار پایا اور کسی بے گناہ کی ناجائز خونریزی سے وہ لوگ بچ گئے۔ عقل و دانش کے نام پر کلام الٰہی میں تحریف اور رد و بدل کی بدترین عادت کے مریض تھے۔ اپنے مفادات اور دنیا کی عارضی منفعت کے لئے اللہ کی آیتوں کو بیچ ڈالتے تھے اور اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہوگا اور ہم جہنم میں نہیں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ضابطہ بیان کردیا کہ جو بھی جرائم اور گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ جہنم سے بچ نہیں سکے گا اور ایمان و اعمال صالحہ والے دائمی جنتوں کے حقدار قرار پائیں گے۔
بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ والدین، عزیز و اقارب، غرباء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ لوگوں سے خوش اخلاقی کے ساتھ معاملہ کریں۔ دنیا میں فساد پھیلانے اور خونریزی کرنے سے باز رہیں، مگر یہ لوگ تخریب کار اور جنگ کے ذریعہ لوگوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں سے بے گھر کرنے اور انہیں گرفتار کرکے ان کی آزادی سلب کرنے جیسی بدترین حرکات کے مرتکب پائے گئے۔ تورات کی جو باتیں ان کے مفادات کے مطابق ہوتیں انہیں مان لیتے اور جو مفادات کے خلاف ہوتیں انہیں رد کردیتے۔ اس لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت کے بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آخرت میں تمام نعمتیں اور جنت صرف ہمارے ہی لئے ہے۔ قرآن کریم نے کہا کہ پھر تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہئے تاکہ وہ نعمتیں تمہیں جلدی سے حاصل ہوجائیں۔ یہ لوگ جبریل علیہ السلام کے مخالف تھے کہ وہ عذاب اور سزا کے احکام لے کر کیوں آتے ہیں؟ وہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جبریل تو ایک قاصد اور نمائندہ ہے۔ جزا یا سزا کے احکام اللہ تعالیٰ نازل کرتے ہیں۔ کسی کے نمائندہ کی مخالفت دراصل اس کی مخالفت شمار ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل تو میرے حکم سے قرآن کریم نازل کررہے ہیں، لہٰذا جبریل کی دشمنی درحقیقت اللہ، اس کے رسول اور تمام فرشتوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ یہودیوں کی عادات بد میں جادوگروں کی اطاعت اور ان کی اتباع بھی تھی۔ اس کی مذمت آیت ۱۰۲ میں کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی زبانی کلامی دل آزاری اور گستاخیٔ رسول بھی یہودیوں کی گھٹی میں داخل ہے۔ آیت ۱۰۴ میں اسی بات کی مذمت ہے۔ قرآنی تعلیمات میں انسانی نفسیات، ماحول اور معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر جس طرح تدریجی احکام اور مرحلہ وار تبدیلیاں کی گئی ہیں آیت ۱۰۶ میں ان کا بیان ہے۔
یہود و نصاریٰ اپنے کفر اور حسد کی بناء پر مسلمانوں کو ایمانی تقاضوں پر کاربند دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ان کی فطرتی خباثت ہے لہٰذا انہیں نظر انداز کرکے اپنے کام سے کام رکھیں۔ دلائل کو نظر انداز کرکے محض اپنے مذہب یا نظریہ کی بنیاد پر کسی بات کو اختیار کرنا تعصب کہلاتا ہے۔ اس کی مذمت آیت ۱۱۳ میں بیان ہوئی ہے۔ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کی بات کرنے سے روکنا ظلم کی بدترین مثال ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب افراد دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی بدترین عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت آیت ۱۱۶ میں ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ یہود و نصاریٰ کے تعصب کی بدترین شکل کو بیان کیا کہ اس وقت تک مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار ہوکر یہودیت یا عیسائیت کو اختیار نہ کریں۔ آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بنی اسرائیل پر انعامات کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ اور یوم احتساب کی یاد تازہ کرکے یہودیوں کے بارے میں گفتگو پوری کردی۔ پھر انسانیت کے لئے مثالی شخصیت حضرت ابراہیم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ ان کی آزمائش و ابتلاء اور اس میں کامیابی کی شہادت کے ساتھ ہی انہیں امامتِ انسانیت کے منصب پر فائز کرنے کا اعلان اور ابراہیمی زندگی اپنانے والے ہر شخص کو اس عہدہ کا اہل قرار دینے کا فیصلہ۔ ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات خاص طور پر تعمیر کعبہ کا کارنامہ جو انسانوں کے لئے مرکز وحدت ہے۔ پھر دعاء ابراہیمی جس کے نتیجہ میں بعثت نبوی اور امت مسلمہ کو وجود ملا۔
پھر اس مثالی شخصیت کے مثالی خاندان کا تذکرہ اور بیان کہ اگر آباء و اجداد حق و انصاف کے علمبردار ہوں تو ان کی اتباع و تقلید ہی کامیابی کی اصل کلید ہے۔ آخر میں اس ضابطہ کا اعلان کہ ’’وہ لوگ جو گزر چکے، ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہوگا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہارے ساتھ معاملہ ہوگا۔‘‘ ؎۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے

0 comments:

Post a Comment