يَعْتَذِرُونَ
اس پارہ کی ابتداء میں ان لوگوں کا تذکرہ
ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں حضور علیہ السلام کے ساتھ
شریک نہیںہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عذر بیان کریں گے اور
قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ان کی
بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کرکے ان سے راضی
ہوجائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے
تو اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں
قسم کے لوگ ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو
جرمانہ سمجھنے اور مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور
توحید و قیامت پر ایمان کے ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔
یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی
میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان کے متبعین کے لئے جنت کی
دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔ اور ایسے لوگوں کی
تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دینے
کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول
فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے
مسجد بنا کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے
مقابلہ میں فتنہ و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں
خفیہ طور پر عیسائیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو
بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن
جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار اور فساد
پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر
اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو منع کردیا اور اس
مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار (مسلمانوں کو
نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ لگا
کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی
معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو
اس کا تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ
مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں
کوشاں رہتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے
مسجد قبا اور اس میں جمع ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری
و باطنی طہارت کے جذبہ کو سراہا۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خریدلی ہیں۔ یہ لوگ کافروںکو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنادیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔
سورہ یونس
مکی سورت ہے۔ ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی نازل کردیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہوجاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کافروں پر عذاب اتارنے میںجلدی نہیںکرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے ہی اللہ کو بھلا دیتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت کوجب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آگیا ہے اس لئے سنا رہا ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شر ارتوں پر اتر آتے ہیں، آپ انہیں بتادیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی تمہاری بدعملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش ہوتے ہو اور شرک میںمبتلارہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر آجائیں تو مایوس ہوکر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں او رکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں کوئی آفت آکر اسے اس طرح تباہ کرکے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور سیاہی چھا رہی ہوگی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان باطل کا انکارکریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بناکر دکھادو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں سچی ہیں؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آگیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں جاسکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ انہوںنے اپنی قوم کے متکبر سرداروںکے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے ساتھ کشتی میں بچالیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کرکے عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔ انہوںنے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوںنے اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلالئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہوکر رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا فیصلہ کردیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کردیا کہ زندگی بھر گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔ البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آگیا اور آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔ کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برأت کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام انسانیت کے لئے آچکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر ہوگا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔
سورہ ہود
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کا موضوع مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے انبیاء کے علاوہ قوم عاد، ان میں مبعوث کئے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس لئے سورت کا نام ’’ہود‘‘ رکھا گیا۔ ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے کہ یہ مفصل اور پر حکمت کتاب ہے پھر توحید باری تعالیٰ کا بیان اور توبہ و استغفار کی تلقین کے ساتھ آخرت کے یوم احتساب کا تذکرہ اور محاسبہ کے عمل کی یاددہانی ہے اور اللہ کے علم کی وسعت و شمول کا بیان کہ وہ خفیہ و علانیہ ہر چیز کو جانتا ہے اور سینوں کے تمام بھید اس کے علم میں ہیں۔
0 comments:
Post a Comment