وَمَا مِن دَآبَّةٍ
ابتداء میں تمام مخلوقات کی معیشت کا
مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ
تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام
گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کرکے انسان کو دنیا میں
بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جاسکے۔ اللہ کے یہاں
مقدار کی کثرت کی بجائے ’’معیار کا حسن‘‘ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ
مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں
کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے اور ہم اگر ان کی
نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے
عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ
عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت
نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی
آجائے تو مایوس ہوجاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے
گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین
پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں
کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے
دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل
ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات
کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ
کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ
اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بناکر دکھادیں۔ قرآن کریم
جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آجانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ
قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا
کلام بنانے سے عاجز آجانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ
تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت
کے تقاضے پورے کررہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی
بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان
لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور
ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے
اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ
السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے
قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد
ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب
اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے
والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ
کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے
معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات
اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی
ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان
کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور
دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد
پر اپنے آپ سے جدا نہیںکرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے
دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں
اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ
بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا
معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے
نشہ میں بدمست ہورہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوںنے پورا
معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب
کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتادیا کہ چند مخلص
ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا
ہوچکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آکر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کردیں اور ان
لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور
قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو
غرق کرنے کا فیصلہ فرماچکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور
تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرلو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین
سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینۂ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ
کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق
ہوگئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی
وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح
کردیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں
بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان
کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و
استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد
حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ’’سپر پاور‘‘ قومِ
عاد سے ٹکرلی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان
کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقینا ان سے
زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی
غلطیوں کا اعتراف کرکے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ
و استغفار کرلوگے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کردے گا اور
بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کردے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں
مزید اضافہ کردے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کردیا،
کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے
بتوں نے تم پر اثر انداز ہوکر تمہارا دماغ خراب کردیا ہے تبھی تم اس قسم کی
بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل
ہونے کی بجائے انہیں بتادیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں
گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں
اضافہ کردیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم
باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کرکے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس
سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ
فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر
ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچالیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا
انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کرکے
رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و
آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔
حضرت ہود کی قوم ’’عاد‘‘ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد
قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور
انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ
تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و
استغفار کرلو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ
سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباء و اجداد کی ہی مخالفت شروع
کردی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس
صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی
بچہ دیدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید
کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کررہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ
کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے
مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کرلو
اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچائو ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آجائے
گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مارڈالا جس پر انہیںتین دن
کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنادیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے
زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر
کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا
تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی
رسوائی سے بچالیا۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کرکے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوںنے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کررہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہوگئے تو انہوںنے بتادیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھارہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دوہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ او رمیرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہوسکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ’’اِغلام بازی‘‘ کے شوق میں جمع ہوکر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوںنے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کرکے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کرکے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہوجائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کرکے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوںنے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کررہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہوگئے تو انہوںنے بتادیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھارہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دوہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ او رمیرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہوسکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہوچکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ’’اِغلام بازی‘‘ کے شوق میں جمع ہوکر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوںنے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کرکے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کرکے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہوجائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔
سورہ یوسف
مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ’’احسن القصص‘‘ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوںنے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہوگا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کردیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بناکر اپنے والد کو راضی کرکے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کرکے والد کو بتادیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھاگیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کردیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ’’دعوت گناہ‘‘ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگادیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں باعزت بری کروادیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کرکے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کرکے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کردیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہوکر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوںنے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گائیوں کو دبلی پتلی گائیوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تروتازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہوکر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔
0 comments:
Post a Comment