ملکۂ بلقیس کا تخت
جب
حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کے آپ کے ہاں آنے کی اطلاع مل گئی۔
تو آپ نے چاہا کہ ملکہ سبا کا وہی تخت، جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ
بڑا عظیم الشان ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے یہاں اپنے پاس منگوا لیا جائے۔
جن آپ کے تابع فرمان تھے اور وہ یہ کام کر بھی سکتے تھے اس سے حضرت سلیمان
کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھلا
دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہوجائے
کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں۔ بلکہ اللہ نے انھیں بہت بڑی بڑی
نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ آپ صرف ایک سلطنت
کے فرمانروا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں۔
آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا: تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا: آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔
ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔
وہ شخص کون تھا؟ جن یاانسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن پرخیا تھا اور اسم اعظم ۔۔۔ یا اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقعہ اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔
آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا: تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا: آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔
ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔
وہ شخص کون تھا؟ جن یاانسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن پرخیا تھا اور اسم اعظم ۔۔۔ یا اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقعہ اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔
0 comments:
Post a Comment