چوبیس گھنٹے
-
میں ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں مری گیا - وہ بارشوں کا موسم تھا - اب
میں جلدی میں تھا اور میں نے دو جوڑے ہی کپڑوں کے ساتھ لیے تھے - راستے میں
موسلا دھار بارش ہوئی اور خوب برسی - اس شدید بارش میں باوجود بچنے کے میں
شدید بھیگ گیا - میں شام کو مری پہنچا - میں خود بھیگ چکا تھا جب کہ دوسرا
جوڑا میرے پاس تھا ، پانی اس میں بھی گھس گیا - اب میں سخت پریشان - اگلے
روز میٹنگ بھی اٹینڈ کرنی تھی - خیر میں مال
روڈ پر آگیا کہیں سے کوئی لانڈری وغیرہ مل جائے تا کہ وہ کپڑے سکھا کر
استری کر دے - مجھے مال پر تو کوئی لانڈری نہ ملی ، البتہ لوئر بازار میں
چھوٹی سی ایک دکان نظر آئی جس پر لکھا تھا " کپڑے چوبیس گھنٹے میں تیار
ملتے ہیں " میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر کپڑے کاؤنٹر پر رکھ دیے -
دکان کے مالک بابا جی نے کپڑوں کو غور سے دیکھا ، پھر بولے ٹھیک ہے " پرسوں
شام کو لے جانا - جمعرات کی شام مغرب سے پہلے - "
میں نے ان سے کہا کہ " حضور آپ نے تو چوبیس گھنٹے میں تیار کرنے کا بورڈ لگایا ہوا ہے ؟"
وہ بابا جی (ذرا بڑی عمر کے تھے ) مسکرا کر بولے " ٹھیک ہے بیٹا چوبیس گھنٹوں میں ہی تیار کر کے دیتے ہیں - لیکن ہم روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں - آٹھ گھنٹے آج ، آٹھ گھنٹے کل ، اور آٹھ گھنٹے پرسوں - یہ کل چوبیس گھنٹے بنتے ہیں - آپ کے کپڑے پرسوں شام چوبیسواں گھنٹہ ختم ہونے سے پہلے مل جائیں گے - "
اب میں حیران و پشیمان کھڑا بابا جی کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ انھوں نے کس طرح سے چوبیس گھنٹے پورے کر دیے اور میرے پاس کوئی جواب بھی نہ تھا..
بابا صاحبہ از اشفاق احمد
میں نے ان سے کہا کہ " حضور آپ نے تو چوبیس گھنٹے میں تیار کرنے کا بورڈ لگایا ہوا ہے ؟"
وہ بابا جی (ذرا بڑی عمر کے تھے ) مسکرا کر بولے " ٹھیک ہے بیٹا چوبیس گھنٹوں میں ہی تیار کر کے دیتے ہیں - لیکن ہم روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں - آٹھ گھنٹے آج ، آٹھ گھنٹے کل ، اور آٹھ گھنٹے پرسوں - یہ کل چوبیس گھنٹے بنتے ہیں - آپ کے کپڑے پرسوں شام چوبیسواں گھنٹہ ختم ہونے سے پہلے مل جائیں گے - "
اب میں حیران و پشیمان کھڑا بابا جی کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ انھوں نے کس طرح سے چوبیس گھنٹے پورے کر دیے اور میرے پاس کوئی جواب بھی نہ تھا..
بابا صاحبہ از اشفاق احمد
0 comments:
Post a Comment