Tuesday, 25 June 2013

ہجرت کا پہلا سال


مسجد نبوی کی تعمیر

مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان باجماعت نماز پڑھ سکیں اس لئے مسجد کی تعمیر نہایت ضروری تھی حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی ”بنو النجار” کا ایک باغ تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے اس باغ کو قیمت دے کر خریدنا چاہا۔ ان لوگوں نے یہ کہہ کر ” یارسولﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم خدا ہی سے اس کی قیمت (اجرو ثواب) لیں گے۔ ”مفت میں زمین مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی لیکن چونکہ یہ زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا بھیجا۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر حضور سرورِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرما دی۔
(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۸)

اس زمین میں چند درخت، کچھ کھنڈرات اور کچھ مشرکوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے درختوں کے کاٹنے اور مشرکین کی قبروں کو کھود کر پھینک دینے کا حکم دیا۔ پھر زمین کو ہموار کرکے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی اور کچی اینٹوں کی دیوار اور کھجور کے ستونوں پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنائی جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ خود حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جوش دلانے کے لئے ان کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رجز کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ

اَللّٰهُمَّ لَاخَيْرَ اِلَّا خَيْرُ الْاٰخِرَة     فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَ الْمُهَاجِرَة
(بخاری ج۱ ص۶۱)


مسجد نبوی

اے ﷲ! بھلائی تو صرف آخرت ہی کی بھلائی ہے۔ لہٰذا اے ﷲ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ اسی مسجد کا نام ”مسجد نبوی” ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے دُنیوی تکلفات سے پاک اور اسلام کی سادگی کی سچی اور صحیح تصویر تھی، اس مسجد کی عمارتِ اوّل طول و عرض میں ساٹھ گز لمبی اور چوّن گز چوڑی تھی اور اس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف بنایا گیا تھا مگر جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو مسجد کے شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف زمانوں میں مسجد نبوی کی تجدید و توسیع ہوتی رہی۔

مسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترہ تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترہ کا نام ”صفہ” ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ ”اصحاب صفہ” کہلاتے ہیں۔
(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۹ و بخاری)

0 comments:

Post a Comment