Tuesday 18 June 2013

حضرت عمر کا اسلام

حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبرِ اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبدﷲ قریشی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ یہ مسلمان ہو چکے تھے مگر حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔
حضرت نعیم بن عبدﷲ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیوں؟ اے عمر! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے؟ کہنے لگے کہ آج بانیٔ اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن “فاطمہ بنت الخطاب” اور تمہارے بہنوئی “سعید بن زید” بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے۔ بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن! کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا۔ بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر! سن لو، تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔
حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے بہن کا خون آلودہ چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا۔ اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ
سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَ هوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيمُ
اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ براندام ہونے لگا۔

جب اس آیت پر پہنچے کہ
 ٰامِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِه
تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ
 ٰ”اَشْهدُ اَنْ لآَّ اِلٰه اِلَّا اللّٰه وَاَشْهدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ
یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابو ارقم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بند پایا، کنڈی بجائی، اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے۔ لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے ! تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا؟ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے ﷲ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ پھر حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی؟
اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم! میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔
پھر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے۔ ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے آگے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
اتنے میں حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا ماموں ابوجہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے؟
لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ سن کر ابوجہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کر کے اعلان کر دیا کہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی۔
ابوجہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے۔ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہا یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اسلام کو غالب فرما دیا۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۷۲)

حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام پر ذبح کیا۔
پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ
يَا جَلِيْحُ اَمْرٌ نَّجِيْحٌ رَجُلٌ فَصِيْحٌ يَقُوْلُ لَآ اِلٰه اِلَا اللّٰه
یہ آواز سن کر سب لوگ ہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہرگز ہرگز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ
يَا جَلِيْحُ اَمْرٌ نَّجِيْحٌ رَجُلٌ فَصِيْحٌ يَقُوْلُ لَآ اِلٰه اِلاَّ اللّٰه
یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی لَا اِلٰه َالِاَّ اللّٰه کہہ رہا ہے۔ حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔
اس کے فوراً ہی بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔
(بخاری ج۱ ص۵۴۶ و زرقانی ج۱ ص۲۷۶ باب اسلام عمر)

0 comments:

Post a Comment