Tuesday 18 June 2013

حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے

اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دو ایسی ہستیاں دامن اسلام میں آ گئیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ان کے عزت و اقبال کا پرچم بہت ہی سر بلند ہو گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچاؤں میں حضرت حمزہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑی والہانہ محبت تھی اور وہ صرف دو تین سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عمر میں زیادہ تھے اور چونکہ انہوں نے بھی حضرت ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے اور شکار کے بہت ہی شوقین تھے۔ روزانہ صبح سویرے تیر کمان لے کر گھر سے نکل جاتے اور شام کو شکار سے واپس لوٹ کر حرم میں جاتے، خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور قریش کے سرداروں کی مجلس میں کچھ دیر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن حسب معمول شکار سے واپس لوٹے تو ابن جدعان کی لونڈی اور خود ان کی بہن حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتایا کہ آج ابوجہل نے کس کس طرح تمہارے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔ یہ ماجرا سن کر مارے غصہ کے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون کھولنے لگا۔ ایک دم تیر کمان لئے ہوئے مسجد حرام میں پہنچ گئے اور اپنی کمان سے ابوجہل کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور کہا کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں دیتا ہے ؟ تجھے خبر نہیں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ یہ دیکھ کر قبیلۂ بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابوجہل کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے تو ابوجہل نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنو ہاشم سے جنگ نہ چھڑ جائے یہ کہا کہ اے بنی مخزوم! آپ لوگ حمزہ کو چھوڑ دیجیے۔ واقعی آج میں نے ان کے بھتیجے کو بہت ہی خراب خراب قسم کی گالیاں دی تھیں۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۴۴ و زرقانی ج۱ ص۲۵۶)

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان ہو جانے کے بعد زور زور سے ان اشعار کو پڑھنا شروع کر دیا:۔

اِلَي الْاِسْلَامِ وَ الدِّيْنِ الْحَنِيْفْ         حَمِدْتُّ اللّٰه حِيْنَ هدٰي فُؤَادِيْ
تَحَدَّرَ دَمْعُ ذِي الْلُبِّ الْحَصِيْف         اِذَا تُلِيَتْ رَسَائِلُه عَلَيْنَا
فَلاَ تَغْشَوْه بِالْقَوْلِ الْعَنِيْف         وَ اَحْمَدُ مُصْطَفًي فِيْنَا مُطَاعٌ
وَ لَمَّا نَقْضِ فِيْهمْ بِالسُّيُوْف         فَلاَ وَ اﷲِ نُسْلِمُه لِقَوْمٍ

(1)

میں ﷲ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں جس وقت کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کی طرف ہدایت دی۔

(2)

جب احکام اسلام کی ہمارے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو با کمال عقل والوں کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

(3)

اور خدا کے برگزیدہ احمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مقتدیٰ ہیں تو (اے کافرو) اپنی باطل بکواس سے ان پر غلبہ مت حاصل کرو۔

(4)

تو خدا کی قسم! ہم انہیں قوم کفار کے سپرد نہیں کریں گے۔ حالانکہ ابھی تک ہم نے ان کافروں کے ساتھ تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔
(زرقانی ج۱ ص۲۵۶)

0 comments:

Post a Comment