جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوۓ نہیں
تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیب
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
شکیب جلالی
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوۓ نہیں
تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیب
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
شکیب جلالی
0 comments:
Post a Comment