Showing posts with label Shakaib Jalali. Show all posts
Showing posts with label Shakaib Jalali. Show all posts

Monday, 3 June 2013

Jab Tak Gham e Jahan K hawale Hue Nahin

Posted by Unknown on 04:24 with No comments
جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں

کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں

چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں

انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں

طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں

ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوۓ نہیں

تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیب
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں

شکیب جلالی

Thursday, 28 March 2013

Paas Reh Ker Bhi Bahut Door Hain Dost

Posted by Unknown on 19:10 with No comments

پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست

ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست

گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست

یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیر راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست

سبھی پثرمردہ ہیں محفل میں شکیب
میں پریشان ہوں رنجور ہیں دوست


Pas reh ker bbhi buhut door hain dost
apne halat se majboor hain dost

tark-e-ulfat bhi nahi ker sakte
sath dene se bhi mazoor hain dost

guftugu ke liye unwan bhi nahi
baat karne pe bhi majboor hain dost

yeh charagh apne liye rehne do
teer raaten bhi to benoor hain dost

sabhi pasmarda hain mehfil mein shakaib
main preshan hun ranjoor hain dost
 

Sunday, 17 March 2013

Introduction of Shakaib Jalali.

Posted by Unknown on 23:28 with No comments
شکیب جلالی

شکیب جلالی

اردو شاعر۔ اصل نام۔ سید حسن رضوی۔ یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ لیکن والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب جلالی بن گئے۔
انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔
شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انہوں نے ایک رسالہ ” جاوید “ نکالا۔ لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر ”مغربی پاکستان“ نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے۔
مغربی پاکستان چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے۔ تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں بھی انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے۔
ان کی شاعری ویسے ہی شعلہ فشانی کرتی رہی اور پھر احساسات کی اس تپش کے آگے انہوں نے سپر ڈال دی اور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی اور اس طرح شعلوں سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔