Friday, 21 June 2013

Wise Behlol And Haroon-ar-Rasheed

Posted by Unknown on 05:19 with No comments
بہلول دانا ہمیشہ کی طرح ہارون الرشید کو نصیحت کرنے کے لئے شاہی محل میں آئے تھے، اگرچہ انہیں معلوم تھا اس مغرور عباسی خلیفہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، لیکن عادت سی ہوگئی تھی کہ وہ کبھی کبھار محل میں آکر اشاروں کنایوں سے خلیفہ کو سمجھائیں کہ وہ غلطی پر ہے۔
ہارون بھی بہلول کی باتیں سننے کا عادی ہو چکا تھا، اگرچہ وہ چبھتی ہوئی باتیں کرتے اور خلیفہ کے ساتھ گستاخانہ رویہ اختیار کرتے تھے ، اس کے باوجود ہارون بہلول کی باتوں کا نوٹس نہیں لیتا تھا، لیکن اب کی دفعہ بہلول نے بھرے مجمع میں ایسی حرکت کی جس سے خلیفہ بہت ناراض ہوا۔
ہوا یوں کہ بہلول دربار میں داخل ہوا تو دیکھا لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہارون کے ارد گرد بیٹھی ہوئی ہے، جس طرف بہلول نے نظر دوڑائی کہیں بیٹھنے کی جگہ نظر نہ آئی، ساتھ ہی اس نے یہ بھی احساس کیا کہ کوئی شخص انہیں دیکھ کر خوش نہیں ہوا، وہ تھوڑی دیر تک کھڑے ہو کر لوگوں کو تکتے رہے، اس کے بعد مجمع کو چیرتے ہوئے سیدھے تخت کی طرف بڑھے اور ہارون کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے۔
دربار میں بیٹھے ہوئے خوشامدی لوگ چیخنے چلانے لگے:
یہ کیسی حرکت ہے؟
یقینا بہلول دیوانہ ہے!
ابھی تک کسی نے اس طرح خلیفہ کی بے احترامی نہیں کی تھی….
ہارون لوگوں کی باتیں سن کر بہلول کی طرف غصے سے دیکھنے لگا، لیکن بہلول ٹس سے مس نہیں ہورہے تھے ، ان کے لبوں پر ایک ملائم مسکراہٹ تھی ، غصے سے ہارون کی زبان بند تھی، وہ احساس کررہا تھا کہ بہلول نے اس حرکت کے ذریعے دوسروں کے سامنے اس کی توہین کی ہے۔
سب لوگ حیران ہو کر خلیفہ اور بہلول کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ہارون گہری سوچ میں پڑ گیا، لیکن اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح بہلول سے اپنی جان چھڑائے۔
اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، وہ ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بہلول کی طرف دیکھ کر بولا:
” اب جب تم تکلیف کرکے ہم سے ملنے آئے ہو، ہم تم سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر تم اس سوال کا جواب دو گے تو ہم تمہیں ایک ہزار دینار انعام دیں گے۔ لیکن اگر تم اس کا جواب نہ دے سکے، تو ہم حکم دیں گے کہ تمہاری مونچھیں اور داڑھی منڈوا کر تمہیں ایک گدھے پر سوار کرکے گلی کوچوں اور بازاروں میں پھرائیں۔
بہلول سمجھ گئے تھے کہ خلیفہ انتقام پر اتر آیا ہے، اس لئے اس کی توہین کرتے ہوئے بولے:
” مجھے تیرے دیناروں کی تو ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ایک شرط کے ساتھ تیری پہیلی بوجھنے کے لئے تیار ہوں۔“
ہارون نے پوچھا: کیسی شرط؟
بہلول: اس شرط پر کہ تم مکھیوں کو حکم کرو کہ وہ مجھے نہ ستائیں۔
ہارون سر جھکا کر سوچنے لگا، اس کے بعد دوسروں کی طرف دیکھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ توقع کررہا ہے کہ مجمع میں سے کوئی شخص بہلول کا جواب دے، لیکن سب دھنگ رہ گئے تھے، مجبوراً ہارون کہنے لگا:
” یہ ناممکن ہے! اس لئے کہ مکھیاں تو میرا حکم نہیں مانتیں۔“
بہلول حقارت سے ہارون کو دیکھتے ہوئے بولے:
” تم کیسے بادشاہ ہو جو ان ناچیز مکھیوں کے سامنے عاجز ہو؟“
اس بات پر تمام درباری قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
ہارون غصے کے عالم میں ایسی نظروں سے درباریوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اس کے رعب سے سب کے لبوں سے ہنسی اور مسکراہٹ دور ہوگئی اور ان کی سانسیں رک گئیں۔
بہلول نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے ہارون کو حد سے زیادہ دوسروں کے سامنے رسوا کیا ہے۔ اس کے بعد بہلول نے ارادہ کیا کہ ہارون کی دلجوئی کرے اور اس کے غصے کو ٹھنڈا کرے، انہوں نے ہارون سے کہا:
” اب اپنی پہیلی پوچھومیں کسی شرط کے بغیر اس کو بوجھنے کے لئے تیار ہوں۔“
ہارون بولا:
” اگر تم نہیں بتا سکے تو وہی سزا دوں گا جو میں نے بیان کیا ہے۔“
اب یہ بتاﺅ کہ وہ کونسا درخت ہے جس کی عمر ایک سال ہے اور اس کی بارہ شاخیں ہیں؟ ان میں سے ہر ایک شاخ پر تیس پتے ہیں، ان پتوں کا ایک رخ روشن ہے اور دوسرا کالا ہے؟
بہلول سوچ میں پڑ گئے ، انہوں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا : کیسا عجیب سوال ہے؟
بہلول جواب نہیں دے سکتے، اسے سزا ملے گی۔
بے چارہ بہلول!
ہارون فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا:
” اگر پہیلی کا جواب نہیں دے سکتے ہو تو دیر مت کرو اور سزا کے لئے تیار ہو جاﺅ۔“
اس نے کارندوں کو حکم دیا کہ بہلول کی مونچھ داڑھی منڈوا کر گلی کوچوں اور بازاروں میں پھیرائیں ، بہلول خلیفہ کی بات کاٹتے ہوئے بولے:
” یہ درخت سال ہے، بارہ ٹہنیاں اس کے بارہ مہینے ہیں اور تیس تیس پتے مہینے کے دن ہیں، جن کا اجلا رخ دن اور کالا رخ رات ہے۔“
جواب سن کر مجمع میں سے شاباش، شاباش کی آوازیں گونجیں ۔ سب خوش ہو کر بہلول کو داد دینے لگے، لیکن ہارون خاموش تھا، اس کا منہ لٹک گیا تھا اور اس کے چہرے پر شکست کے آثار نمایاں تھے۔

0 comments:

Post a Comment