ایک دفعہ کسی بات پر ناراض ہوکر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ آنے کی قسم
اٹھائی اور ایک بالاخانے میں ان سے الگ ہوگئے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس
بالا خانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو دیکھا اس میں قرص درخت
کے پتوں کی ایک ڈھیری چمڑے کا مشکیزہ اور جوکی ایک ڈھیری تھی آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ننگی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے چٹائی کی رسیوں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پہلو پر نشان ڈال دیئے تھے یہ
دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے کیا ہوا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
:’ ’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی
مخلوق سے منتخب (چنے ہوئے )ہیں ۔ اور کسریٰ و قیصر کیسی عیش و تجمل اور
نعمتوں سے لطف اندوز ہیں! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ تھا ۔ فرمانے لگے :’’ کیا تو کسی شک میں ہے؟
ان لوگوں کی پسندیدہ اور عمدہ چیزیں جلدی دنیوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں
‘‘۔ کیاتو پسند نہیں کرتا کہ وہ نعمتیں ان کے لئے دنیا ہی میں ہوں اور
ہمارے لئے آخرت میں ہوں ‘‘۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ کیوں
نہیں اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میں اسے پسند کرتا ہوں ) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’پھر اللہ تعالی کی تعریف کر‘‘۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے تو چٹائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلد پر نشان ڈال دیئے میں نے ان نشانات کو پونچھتے ہوئے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے لئے ایسی چیز بچھائیں جو ان نشانات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچائے…؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے دنیا کے عیش و راحت سے کیا سروکار ؟دنیا کے ساتھ میرا معاملہ اس سوار کی طرح ہے جو کسی درخت کے سائے تلے کچھ دیر ٹھہرے پھر اسے چھوڑ کر چلتا بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہی بات اچھی لگے گی کہ تین راتیں گذارنے تک میرے پاس اس میں سے کچھ باقی نہ ہو البتہ قرض اتارنے کے لئے میں کچھ سونا بچالوں گا‘
سیدنا عمر و ابن الحارث رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت دینار درہم غلام لونڈی اور کوئی چیز نہیں چھوڑی البتہ ایک سفید خچر چھوڑی تھی جس پر سوار ہوتے تھے اپنے ہتھیار چھوڑے تھے اور کچھ زمین تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافروں کے لئے بطور صدقہ وقف کر دیا تھا
(آج مسلمان ہتھیاروں پر خرچ کرنے اور انہیں تیار رکھنے کو رجعت پسندی اورعیب سمجھتے ہیں جس کا واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے)
و اعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اﷲ و عدوکم
’’دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنی قوت اور گھوڑے (جنگی سازو سامان )تیار رکھو اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کروگے‘‘۔
نام نہاد مسلمان دشمن کے آرڈر پر جنگی تیاری کو دہشت پسند قرار دیتے ہیں اور سارا زور اقتصادی ترقی حاصل کرنے پر صرف کررہے ہیں حالانکہ تاریخ اسلامی اس امر پر شاہد ہے جہاد اور سامان جنگ کے ذریعے جزیرۃ العرب میں ما ل و زر کی ایسی فراوانی ہوئی تھی کہ کوئی زکٰوۃ لینے والا نہیں ملتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ میرا رزق میرے نیزے کے سائے میں رکھاگیا ہے‘‘اسرائیل کی وزیر عظمیٰ گواڈا میئر نے ایک دفعہ اپنے وزراء اور مشیروں سے کہا :ٹیکس (جنگی )میں اضافہ کرکے سامان جنگ پر خرچ کرو۔انہوں نے کہا جنگی ٹیکسوں سے رعایا کی معیشت تنگ ہوجائے گی وہ بھوکے مریں گے گولڈا میئر نے کہا : مجھے علم ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ان کے گھر میں تھوڑے جو تھے اور نو تلواریں زریں وغیرہ لٹک رہی تھیں انہی کے ذریعے انہیں ایسی معاشی ترقی حاصل ہوئی تھی کہ ان میں زکٰوۃ لینے والا کوئی نہیں ۔ حالانکہ جزیرۃ العرب میں نہ زراعت تھی نہ فیکٹریاں تھیں افسوس کہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اکثریت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گولڈا میئر جتنا بھی علم نہیں رکھتی
(یہ احادیث امام بخاری مسلم اور ترمزی سے روایت کی گئی ہیں )
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے تو چٹائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلد پر نشان ڈال دیئے میں نے ان نشانات کو پونچھتے ہوئے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے لئے ایسی چیز بچھائیں جو ان نشانات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچائے…؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے دنیا کے عیش و راحت سے کیا سروکار ؟دنیا کے ساتھ میرا معاملہ اس سوار کی طرح ہے جو کسی درخت کے سائے تلے کچھ دیر ٹھہرے پھر اسے چھوڑ کر چلتا بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہی بات اچھی لگے گی کہ تین راتیں گذارنے تک میرے پاس اس میں سے کچھ باقی نہ ہو البتہ قرض اتارنے کے لئے میں کچھ سونا بچالوں گا‘
سیدنا عمر و ابن الحارث رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت دینار درہم غلام لونڈی اور کوئی چیز نہیں چھوڑی البتہ ایک سفید خچر چھوڑی تھی جس پر سوار ہوتے تھے اپنے ہتھیار چھوڑے تھے اور کچھ زمین تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافروں کے لئے بطور صدقہ وقف کر دیا تھا
(آج مسلمان ہتھیاروں پر خرچ کرنے اور انہیں تیار رکھنے کو رجعت پسندی اورعیب سمجھتے ہیں جس کا واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے)
و اعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اﷲ و عدوکم
’’دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنی قوت اور گھوڑے (جنگی سازو سامان )تیار رکھو اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کروگے‘‘۔
نام نہاد مسلمان دشمن کے آرڈر پر جنگی تیاری کو دہشت پسند قرار دیتے ہیں اور سارا زور اقتصادی ترقی حاصل کرنے پر صرف کررہے ہیں حالانکہ تاریخ اسلامی اس امر پر شاہد ہے جہاد اور سامان جنگ کے ذریعے جزیرۃ العرب میں ما ل و زر کی ایسی فراوانی ہوئی تھی کہ کوئی زکٰوۃ لینے والا نہیں ملتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ میرا رزق میرے نیزے کے سائے میں رکھاگیا ہے‘‘اسرائیل کی وزیر عظمیٰ گواڈا میئر نے ایک دفعہ اپنے وزراء اور مشیروں سے کہا :ٹیکس (جنگی )میں اضافہ کرکے سامان جنگ پر خرچ کرو۔انہوں نے کہا جنگی ٹیکسوں سے رعایا کی معیشت تنگ ہوجائے گی وہ بھوکے مریں گے گولڈا میئر نے کہا : مجھے علم ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ان کے گھر میں تھوڑے جو تھے اور نو تلواریں زریں وغیرہ لٹک رہی تھیں انہی کے ذریعے انہیں ایسی معاشی ترقی حاصل ہوئی تھی کہ ان میں زکٰوۃ لینے والا کوئی نہیں ۔ حالانکہ جزیرۃ العرب میں نہ زراعت تھی نہ فیکٹریاں تھیں افسوس کہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اکثریت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گولڈا میئر جتنا بھی علم نہیں رکھتی
(یہ احادیث امام بخاری مسلم اور ترمزی سے روایت کی گئی ہیں )
0 comments:
Post a Comment