نقلی ہار
فرانسیسی ادب میں حقیقت پر مبنی ایک سچے واقعے پر لکھا ہوا قصہ بہت ہی مشہور ہے جو وہاں مدتوں پہلے پیش آیا۔ اس واقعے کے کرداروں کے صحیح نام اور اور واقعہ کی تفصیل تو مجھے اب یاد نہیں ہے۔ ہاں مگر اس واقعے کا لب لباب ضرور یاد ہے جسے میں آپ کیلئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔
فرانس کے کسی دور دراز شہر کے مضافات میں ایک پیاری سی لڑکی جس کا نام صوفی تھا اور ایک نوجوان مصور جس کا نام پیٹریک تھا ، رہتے تھے۔ پیٹرک کی مہارت اور شوق و لگن سے بنے ہوئے فن پاروں کو جو بھی دیکھتا تھا مبہوت ہو کر رہ جاتا تھا۔ کم و بیش ہر شخص ہی پیٹرک کو یہ نصیحت کرتا کہ پیرس چلے جاؤ وہاں تمہارا مستقبل بہت شاندار اور تابناک ہوگا۔
ان دونوں نے بیس سال کی عمر میں شادی کرلی اور فیصلہ کیا کہ وہ روشنیوں کے شہر پیرس جا کر رہیں گے۔ پیرس جا کر رہنے کیلئے ن کے اھداف واضح تھے کہ پیٹرک ایک عظیم مصور بنے گا تو صوفی ایک مشہور مصنفہ بنے گی۔
دونوں نے پیرس کے ایک خوبصورت علاقے میں گھر لیا اور اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں لگ گئے۔ صوفی کا تعارف اپنی ایک مالدار ہمسائی سے ہوا جو صوفی سے نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ملتی اور حال احوال پوچھتی بانٹتی۔ ایک دن صوفی نے اس ہمسائی سے اس کا خوبصورت ہار مانگا تاکہ وہ یہ ہار پہن کر اپنے گاؤں میں ایک شادی میں شرکت کر سکے۔ ہمسائی نے یہ ہار تو بغیر پس و پیش کے صوفی کے حوالے کردیا مگر یہ نصیحت ضرور کی کہ ہار کا بہت خیال رکھنا۔
شادی سے واپس آ کر صوفی کو پتہ چلا کہ ہار اس سے گم ہو چکا ہے تو صوفی کے اوسان خطا ہوگئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی جبکہ یہ جان کر کچھ ایسی ہی کیفیت پیٹرک کے ساتھ تھی جو صدمے سے نڈھال نیم بیہوش ہو چکا تھا۔
ہر طریقے سے غور کرنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس مالدار خاتون کو ویسا ہی ہار خرید کر واپس کریں، اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اور اثاثے بیچے، مزید رقم بھاری سود پر قرض اٹھائی اور ویسا ہی ہار خرید کر اس عورت کو دیدیا جس نے بغیر کسی شک کے کہ ہار نیا ہے یا پرانا ، ان سے ہار لے لیا۔
وقت کے ساتھ قرض خواہوں کے مطالبے تو ایک طرف، بھاری سود کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے قرضوں نے ان کو ہلکان کر کے رکھ دیا۔ جب کہ ان کے پاس کوئی لگی بندھی آمدن کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نتیجے میں سب سے پہلے تو ان دونوں کو اپنا مکان چھوڑ کر ایک گندے علاقے کے گھٹیا سے مکان میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ اپنے خوابوں کو پس پشت ڈال کر، صوفی کسی کے گھر میں گھریلو ملازمہ ٹھہر گئی اور پیٹرک بندرگاہ پر سامان ڈھونے اتارنے اور لادنے والا مزدور بن گیا۔ ان مخدوش حالات میں ان کی زندگی پچیس سال بیت گئے۔ سہانے سپنے تو بعد کی بات تھی، ان دونوں کی جوانی برباد ہوگئی اور زندگیاں بوجھ بن کر رہ گئیں۔
ایک دن صوفی بازار سے اپنی نئی مالکہ کیلئے سبزیاں خرید رہی تھی کہ اس کی پرانی ہمسائی نے اسے دیکھ لیا۔ اس مالدار ہمسائی نے صوفی کو پکارتے ہوئے کہا؛ معاف کرنا، کیا تم صوفی ہو؟
صوفی نے بھی حیرت کے ایک جھٹکے سے اسے دیکھا اور کہا؛ کمال ہے آپ نے مجھے اتنے سالوں کے بعد دیکھا اور پہچان بھی لیا ہے!
یا الٰہی، یہ کیا حال بنا ہوا ہے تمہارا؟ اور تم اس طرح اچانک کہاں غائب ہو گئی تھیں؟ اس عورت نے پوچھا۔
صوفی نے کہا؛ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے آپ سے ہار ادھار لیا تھا۔ بعد میں وہ ہار ہم سے گم ہو گیا تھا، آپ کو ہار لوٹانے کیلئے ہمیں سود پر قرضہ اٹھا کر ہار خریدنا پڑا، اور ہم وہ قرضہ ابھی تک چکا رہے ہیں۔
عورت نے صدمے کی ایک کیفیت سے کہا؛ یا الٰہی، تم اس حال میں جا پہنچیں اس ہار کیلئے؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ ہار تم سے گم ہو گیا ہے۔ وہ ہار تو نقلی تھا جس کی قیمت پانچ فرانک سے زیادہ نہیں تھی۔
فرانسیسی ادب میں حقیقت پر مبنی ایک سچے واقعے پر لکھا ہوا قصہ بہت ہی مشہور ہے جو وہاں مدتوں پہلے پیش آیا۔ اس واقعے کے کرداروں کے صحیح نام اور اور واقعہ کی تفصیل تو مجھے اب یاد نہیں ہے۔ ہاں مگر اس واقعے کا لب لباب ضرور یاد ہے جسے میں آپ کیلئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔
فرانس کے کسی دور دراز شہر کے مضافات میں ایک پیاری سی لڑکی جس کا نام صوفی تھا اور ایک نوجوان مصور جس کا نام پیٹریک تھا ، رہتے تھے۔ پیٹرک کی مہارت اور شوق و لگن سے بنے ہوئے فن پاروں کو جو بھی دیکھتا تھا مبہوت ہو کر رہ جاتا تھا۔ کم و بیش ہر شخص ہی پیٹرک کو یہ نصیحت کرتا کہ پیرس چلے جاؤ وہاں تمہارا مستقبل بہت شاندار اور تابناک ہوگا۔
ان دونوں نے بیس سال کی عمر میں شادی کرلی اور فیصلہ کیا کہ وہ روشنیوں کے شہر پیرس جا کر رہیں گے۔ پیرس جا کر رہنے کیلئے ن کے اھداف واضح تھے کہ پیٹرک ایک عظیم مصور بنے گا تو صوفی ایک مشہور مصنفہ بنے گی۔
دونوں نے پیرس کے ایک خوبصورت علاقے میں گھر لیا اور اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں لگ گئے۔ صوفی کا تعارف اپنی ایک مالدار ہمسائی سے ہوا جو صوفی سے نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ملتی اور حال احوال پوچھتی بانٹتی۔ ایک دن صوفی نے اس ہمسائی سے اس کا خوبصورت ہار مانگا تاکہ وہ یہ ہار پہن کر اپنے گاؤں میں ایک شادی میں شرکت کر سکے۔ ہمسائی نے یہ ہار تو بغیر پس و پیش کے صوفی کے حوالے کردیا مگر یہ نصیحت ضرور کی کہ ہار کا بہت خیال رکھنا۔
شادی سے واپس آ کر صوفی کو پتہ چلا کہ ہار اس سے گم ہو چکا ہے تو صوفی کے اوسان خطا ہوگئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی جبکہ یہ جان کر کچھ ایسی ہی کیفیت پیٹرک کے ساتھ تھی جو صدمے سے نڈھال نیم بیہوش ہو چکا تھا۔
ہر طریقے سے غور کرنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس مالدار خاتون کو ویسا ہی ہار خرید کر واپس کریں، اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اور اثاثے بیچے، مزید رقم بھاری سود پر قرض اٹھائی اور ویسا ہی ہار خرید کر اس عورت کو دیدیا جس نے بغیر کسی شک کے کہ ہار نیا ہے یا پرانا ، ان سے ہار لے لیا۔
وقت کے ساتھ قرض خواہوں کے مطالبے تو ایک طرف، بھاری سود کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے قرضوں نے ان کو ہلکان کر کے رکھ دیا۔ جب کہ ان کے پاس کوئی لگی بندھی آمدن کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نتیجے میں سب سے پہلے تو ان دونوں کو اپنا مکان چھوڑ کر ایک گندے علاقے کے گھٹیا سے مکان میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ اپنے خوابوں کو پس پشت ڈال کر، صوفی کسی کے گھر میں گھریلو ملازمہ ٹھہر گئی اور پیٹرک بندرگاہ پر سامان ڈھونے اتارنے اور لادنے والا مزدور بن گیا۔ ان مخدوش حالات میں ان کی زندگی پچیس سال بیت گئے۔ سہانے سپنے تو بعد کی بات تھی، ان دونوں کی جوانی برباد ہوگئی اور زندگیاں بوجھ بن کر رہ گئیں۔
ایک دن صوفی بازار سے اپنی نئی مالکہ کیلئے سبزیاں خرید رہی تھی کہ اس کی پرانی ہمسائی نے اسے دیکھ لیا۔ اس مالدار ہمسائی نے صوفی کو پکارتے ہوئے کہا؛ معاف کرنا، کیا تم صوفی ہو؟
صوفی نے بھی حیرت کے ایک جھٹکے سے اسے دیکھا اور کہا؛ کمال ہے آپ نے مجھے اتنے سالوں کے بعد دیکھا اور پہچان بھی لیا ہے!
یا الٰہی، یہ کیا حال بنا ہوا ہے تمہارا؟ اور تم اس طرح اچانک کہاں غائب ہو گئی تھیں؟ اس عورت نے پوچھا۔
صوفی نے کہا؛ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے آپ سے ہار ادھار لیا تھا۔ بعد میں وہ ہار ہم سے گم ہو گیا تھا، آپ کو ہار لوٹانے کیلئے ہمیں سود پر قرضہ اٹھا کر ہار خریدنا پڑا، اور ہم وہ قرضہ ابھی تک چکا رہے ہیں۔
عورت نے صدمے کی ایک کیفیت سے کہا؛ یا الٰہی، تم اس حال میں جا پہنچیں اس ہار کیلئے؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ ہار تم سے گم ہو گیا ہے۔ وہ ہار تو نقلی تھا جس کی قیمت پانچ فرانک سے زیادہ نہیں تھی۔
0 comments:
Post a Comment