بہار آئی تو جیسے اِک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کہ ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہوشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے
سوال سارے، جواب سارے
بہار آئی تو کُھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے۔
فیض احمد فیض
0 comments:
Post a Comment