حضرت ابو العاص کا قبولِ اسلام
مکہ میں مسلمانو ں کے خلا ف غضب
و انتقام کے شعلے بھڑک رہے تھے تو دوسری طرف مدینہ سے یہ خبر مو صول ہوئی
کہ اہل مکہ قیدیوں کو آزاد کر وا سکتے ہیں او ر ہر قیدی کی آزادی کا فدیہ
چار ہز ار درہم ہے۔ لہذا ستر (70) اسیروں کی رہا ئی کے لئے دو لا کھ اسی
ہزار درہم ادا کرنے ہو ں گے۔ مکہ کے بزرگو ں نے کہا کہ ہمیں قیدیو ں کا
فدیہ ادا نہیں کر نا چاہیے کیو نکہ مسلمان مالی طور پر بہت کم حیثیت ہیں۔
اگر انہیں فدیہ کے طور پر اتنی بھاری رقم
مو صول ہو گئی تو ان کی حالت سدھر جائے گی لہذا انہیں اپنے ہا تھو ں سے
اپنے دشمن کو مالی طور پر مستحکم نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جنگی قیدیو ں کے
اہل خاندان بمعہ ابو سفیان بزرگان قریش کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی
کہ ان لو گو ں کو فدیہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے تا کہ وہ اپنے عزیز و
اقارب کو مسلمانوں کی قید سے رہائی دلا سکیں۔ لہذا قریش کے سرداروں نے بادل
نخواستہ اسرائے جنگ کی آزادی کے لئے فدیہ ادا کرنے کی منظوری دے دی۔ جنگی
قیدیوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس کا نام تھا ”ابوالعاص “ یہ شخص حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرحومہ زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا بھانجا
تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا شریک حیات بھی۔ دختر
پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاوند کی رہائی کے لئے تین ہز ار درہم
فراہم کر لیے لیکن وہ بقیہ ایک ہزار درہم مہیانہ کر سکیں لہذا اس کے بدلے
میں انہو ں نے ہار کے دو ٹکڑے جن کی مالیت ایک ہز ار درہم تھی، نقد کے
ہمراہ مدینہ روانہ کر دےئے اور پیغام بھجوایا کہ ان کے عوض میرے شوہر کو
آزاد کر دیا جائے۔ وہ ہار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا۔ آنحضور صلی
اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے
فرمایا کہ مناسب سمجھو تو یہ ہار واپس کر دو اور اس قیدی کو چھوڑ دو۔
چنانچہ ان کو رہا کر دیا گیا۔ صرف اس وعدے پر کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت زینب
رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں۔ جس کو حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ نے
پورا کیا۔ بعد ازاں ایسے ہی حسنِ سلوک پر فتح مکہ سے قبل حضرت ابو العاص
رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔
0 comments:
Post a Comment