Thursday 28 February 2013

Iqbal's Last Illness

Posted by Unknown on 08:06 with No comments

                    اقبال کی آخری علالت

جنازہ سہ پہر میں 5 بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا، معلوم نہیں انکے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے، شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ جدھر دیکھیئے حضرت علامہ کا ہی ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جسکا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اسطرح کھویا گیا کہ اسکی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا۔
گرچہ رفت از دستِ ما تاج و نگیں
ما گدایاں را بہ چشمِ کم مَبیں

اگرچہ ہمارے ہاتھ سے تاج و نگیں چلا گیا ہے لیکن ہم گداؤں کو کم (حقیر) نظروں سے مت دیکھو۔
معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نو کی پرستش میں ہے مگر اسکے ایمان سے لبریز دل میں نبی امّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ اٹھی۔
در دلِ مُسلم، مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
دلِ مسلم میں مصطفیٰ (ص) کا مقام ہے، ہماری آبرو مصطفیٰ (ص) کے نام سے ہے۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں انکی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے، آمین، ثم آمین۔_

اقبال کی آخری علالت” از سیّد نذیر نیازی سے ایک اقتباس

0 comments:

Post a Comment