زندگی کا دارو مدار
زندگی کا سارا دار و مدار يہی ہے کہ کوشش اور جدوجہد کرنی ہے اور يہی ہميں پڑهايا اور سکهايا گيا
ہے۔ ليکن چينی فلسفۂ تاؤ کے ماننے والے کہتے ہيں کہ ٹهوس اور نظر ميں آنے والی چيز اور جو بظاہر
آپ کو مفيد نظر آۓ وہ درحقيقت مفيد نہيں ہوتی۔ مثال کے طور پر آپ لاہور سے اسلام آباد جانا چاہتے ہيں۔
آپ اپنی کار نکالتے ہيں اور اسے سٹرک پر تيزی سے بهگاتے ہيں۔ آپ کی يہ کوشش اور تيز بهگانا ايک
ساکن چيز سے وابستہ ہے۔ آپ حيران ہوں گے کہ تيزی سے گهومتا ہوا پہيہ ايک نہايت ساکن دهرے کے
اوپر کام کرتا ہے۔ اگر وہ دهرا ساکن نہ رہے اور وہ بهی گهومنے لگ جاۓ تو پهر بات نہيں بنے گی۔ اس
کوشش اور جدوجہد ميں تيزی سے مصروف پہيۓ کے پيچهے مکمل سکون ہے۔ اور خاموشی و استقامت
اور حرکت سے مکمل گريز ہے۔ مجه سے اور آپ سے يہ کوتاہی ہو جاتی ہے کہ ہم تيز چلنے کے چکر
ميں پيچهے اپنی روح کی خاموشی اور سکون کو توڑ ديتے ہيں
(اشفاق احمد زاویہ سے اقتباس)
ہے۔ ليکن چينی فلسفۂ تاؤ کے ماننے والے کہتے ہيں کہ ٹهوس اور نظر ميں آنے والی چيز اور جو بظاہر
آپ کو مفيد نظر آۓ وہ درحقيقت مفيد نہيں ہوتی۔ مثال کے طور پر آپ لاہور سے اسلام آباد جانا چاہتے ہيں۔
آپ اپنی کار نکالتے ہيں اور اسے سٹرک پر تيزی سے بهگاتے ہيں۔ آپ کی يہ کوشش اور تيز بهگانا ايک
ساکن چيز سے وابستہ ہے۔ آپ حيران ہوں گے کہ تيزی سے گهومتا ہوا پہيہ ايک نہايت ساکن دهرے کے
اوپر کام کرتا ہے۔ اگر وہ دهرا ساکن نہ رہے اور وہ بهی گهومنے لگ جاۓ تو پهر بات نہيں بنے گی۔ اس
کوشش اور جدوجہد ميں تيزی سے مصروف پہيۓ کے پيچهے مکمل سکون ہے۔ اور خاموشی و استقامت
اور حرکت سے مکمل گريز ہے۔ مجه سے اور آپ سے يہ کوتاہی ہو جاتی ہے کہ ہم تيز چلنے کے چکر
ميں پيچهے اپنی روح کی خاموشی اور سکون کو توڑ ديتے ہيں
(اشفاق احمد زاویہ سے اقتباس)
0 comments:
Post a Comment