" شاہی محلے کی ابابیلیں "
خواتین وحضرات ! جب ہم وہاں ایک
گھر میں گئے تو وہاں ایک ڈیوڑھی تھی اور وہ بالکل خالی تھی ۔ ہمیں اس ڈیو
ڑھی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا تھا ۔جب میں اس ڈیوڑھی میں گیا تو میں نے
ایک عجیب و غریب چیز دیکھی کہ چھت کے ساتھ ایک پرانی وضع کا نہایت خوبصورت
غالیچہ لگا ہوا ہے ۔زمین پر تو غالیچے بچھے دیکھے تھے۔ چھت پر ان کا لگا
ہوا واقعی معنی خیز تھا ۔وہ غالیچہ کچھ پرانا تھا اور اس کے رنگ مدھم پڑ
چکے تھے اور وہ ایک طرح "گھسمیلا" سا تھا
لیکن وہ دریدہ حالت میں چھت کے ساتھ لگا ہوا کافی دبیز قسم کا غالیچہ تھا
۔میں کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا اور خیال کرنے لگا کہ یہ ڈیکوریشن کے لئے
لگا ہو گا ۔ہم نے اس طرح کی ڈیکوریشن کے بارے کہیں نہیں پڑھا تھا ۔اتنے میں
ایک صاحب سیڑھیاں اتر کر ڈیوڑھی میں آئے ، وہ بڑے بھاری بھرکم قسم کے آدمی
تھے ۔وہ نہایت سنجیدہ قسم کے تھے ۔وہ ہم سے آنے کی وجہ دریافت کرنے لگے ۔
ہم نے وجہ بتائی تو وہ ہمیں اوپر لے گئے ۔عباس صاحب ان کا نام تھا ۔اوپر
گئے تو وہاں ایک بی بی ملیں ۔میں نے ان سے جاتے ہی کہا کہ "نیچے ڈیوڑھی میں
آپ کی چھت کے ساتھ جو اتنا اچھا غالیچہ لگا ہوا ہے وہ میں نہیں سمجھ سکا
کہ یہ کیسی ڈیکوریشن ہے
اس نے بتایا کہ "یہ غالیچہ نہیں ہے۔ یہ ابابیلوں کے گھونسلے ہیں جو وہ چھت کے ساتھ چپکا کے لگاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ ایک زمانے میں ہمارا یہ گھر ابابیلوں کی آماجگاہ تھا ۔اور بیسیوں ابابیل اس میں آباد تھے ۔اب یہ ویران ہو گیا ہے ۔جیسے کوئی گاؤں ،قریہ ، یا شہر کھنڈر ہو جاتا ہے یہ بھی کھنڈر ہو گیا ہے ۔اب یہاں ابابیل نہیں رہتے ۔وہ یہ جگہ چھوڑکر جا چکے ہیں ۔
خواتین و حضرات اب میں اپنا کام تو بھول گیا اور اس بات میں دلچسپی لینے لگا ۔مین نے ان سے پوچھا کہ "کیوں آئے تھے اور کیوں چلے گئے " اس نے کہا "بھائی صاحب ابابیل ہمیشہ وہاں گھونسلہ بناتا ہے جہان اچھا لہن ،اچھی سوچ اور اچھی آواز نکلتی ہو ۔ جہاں اچھا سر اور لہن نہ ہو وہاں پر یہ گھونسلہ نہیں بناتا ۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس مسجد کا مؤذن سریلا ہو اور جہاں پر قراءت کا سماں بندھا رہتا ہو وہاں ابابیل گھر بناتے ہیں ۔
اس بی بی نے مجھے کہا کہ "آپ نے دیکھا ہو گا شاہی مسجد میں بہت ابابیلوں کے گھر ہیں ۔اسی طرح گرجوں میں جہاں اچھا آرکسٹرا بجتا ہے اور جہاں سریلے پادری ہوتے ہیں وہاں پر ان کے گھر ہوتے ہیں یا پھر ایسے گھرانے میں جہاں سر کا چلن عام ہو ۔" وہ کہنے لگی "یہ میرا گھر تھا، اس میں میری تین خالائیں تھیں جن سے اچھی گائیکائیں پاکستان کیا پورے بر صغیر میں کوئی نہیں تھیں ۔وہ تینوں کی تینوں "شدھ راگ" جانتی تھیں اور ان میں سے ایک ماسی سہرا تھی وہ دھوتک راگ بھی گاتی تھی ۔"
جب انکا ریاض بیت بڑھا تو انہوں نے منڈیروں پر بیٹھنا شروع کر دیا اور گھونسلے ڈال لیئے جب تک وہ تینوں زندہ رہیں یہ گھونسلے آباد رہے اور جب اس گھر سے سر نکل گیا تو یہ گھر بے آباد ہو گیا ۔
زاویہ 3 صفحہ 124 " شاہی محلے کی ابابیلیں "
اس نے بتایا کہ "یہ غالیچہ نہیں ہے۔ یہ ابابیلوں کے گھونسلے ہیں جو وہ چھت کے ساتھ چپکا کے لگاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ ایک زمانے میں ہمارا یہ گھر ابابیلوں کی آماجگاہ تھا ۔اور بیسیوں ابابیل اس میں آباد تھے ۔اب یہ ویران ہو گیا ہے ۔جیسے کوئی گاؤں ،قریہ ، یا شہر کھنڈر ہو جاتا ہے یہ بھی کھنڈر ہو گیا ہے ۔اب یہاں ابابیل نہیں رہتے ۔وہ یہ جگہ چھوڑکر جا چکے ہیں ۔
خواتین و حضرات اب میں اپنا کام تو بھول گیا اور اس بات میں دلچسپی لینے لگا ۔مین نے ان سے پوچھا کہ "کیوں آئے تھے اور کیوں چلے گئے " اس نے کہا "بھائی صاحب ابابیل ہمیشہ وہاں گھونسلہ بناتا ہے جہان اچھا لہن ،اچھی سوچ اور اچھی آواز نکلتی ہو ۔ جہاں اچھا سر اور لہن نہ ہو وہاں پر یہ گھونسلہ نہیں بناتا ۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس مسجد کا مؤذن سریلا ہو اور جہاں پر قراءت کا سماں بندھا رہتا ہو وہاں ابابیل گھر بناتے ہیں ۔
اس بی بی نے مجھے کہا کہ "آپ نے دیکھا ہو گا شاہی مسجد میں بہت ابابیلوں کے گھر ہیں ۔اسی طرح گرجوں میں جہاں اچھا آرکسٹرا بجتا ہے اور جہاں سریلے پادری ہوتے ہیں وہاں پر ان کے گھر ہوتے ہیں یا پھر ایسے گھرانے میں جہاں سر کا چلن عام ہو ۔" وہ کہنے لگی "یہ میرا گھر تھا، اس میں میری تین خالائیں تھیں جن سے اچھی گائیکائیں پاکستان کیا پورے بر صغیر میں کوئی نہیں تھیں ۔وہ تینوں کی تینوں "شدھ راگ" جانتی تھیں اور ان میں سے ایک ماسی سہرا تھی وہ دھوتک راگ بھی گاتی تھی ۔"
جب انکا ریاض بیت بڑھا تو انہوں نے منڈیروں پر بیٹھنا شروع کر دیا اور گھونسلے ڈال لیئے جب تک وہ تینوں زندہ رہیں یہ گھونسلے آباد رہے اور جب اس گھر سے سر نکل گیا تو یہ گھر بے آباد ہو گیا ۔
زاویہ 3 صفحہ 124 " شاہی محلے کی ابابیلیں "
0 comments:
Post a Comment