حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے مبارک ا حوال و واقعات ہر ملک اور ہر
طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں اور ان واقعات
کے ضمن میں اس نبی عربی (فداہ ابی وامی) کے اخلاق و عادات اور خصائل و صفات
کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن، یہاں مختصر طور پر ان کا ذکر
کیا جاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے ، بکثرت ذکر خدا کرنے والے ، لغویات سے دور ، بیہودہ پن سے نفور (بیزار) رہتے تھے۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی اور نہ کسی پر لعنت کیا کرتے تھے۔
مساکین سے محبت فرمایا کرتے ، غرباء میں وہ رہ کر خوش ہوتے ۔ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ جانا کرتے اور کسی بادشاہی کی وجہ سے برا نہ جانتے غلام و آقا۔ حبشی و ترکی میں ذرا فرق نہ کرتے۔ جنگی قیدیوں کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کرتے، جانی دشمنوں سے بکشادہ پیشانی ملتے ، مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے ، جو کوئی مل جاتے اسے پہلے سلام کرتے اور مصافحہ کے لیے خود ہاتھ بڑھاتے ، کسی کی بات قطع نہ فرماتے۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہو جاتے۔ اپنی جان پر تکلیف اٹھالیتے مگر دوسرے شخص کو ازراہِ حیا کام کرنے کو نہ فرماتے۔ زمین پر بلا کسی مسند و فرش کے تشریف رکھتے، گھر کا کام کاج بلا تکلیف کرتے، اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے۔ گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دوہ لیتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھالیتے خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے۔ بازار سے چیز خود جا کر خرید لاتے، جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے بہ رغبت کھا لیتے۔
کنبہ والوں اور خادموں پر بہت مہربان تھے۔ ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے ۔ کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے، سر مبار ک کو جھکائے رکھتے ۔ جو شخص یکبارگی آپ کے سامنے آجاتا وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو کوئی پاس آ بیٹھتا و فدائی بن جاتا۔
آپ سب سے زیادہ بہادر و شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا فوراً عطا فرما دیتے۔ سب سے زیادہ حلیم و بردبار تھے اور سب سے زیادہ حیادار۔ آپ کی نگاہ کسی کے چہرے پر ٹھہرتی نہ تھی۔ آپ ذاتی معاملات میں کسی سے انتقام نہ لیتے تھے اور نہ غصہ ہوتے تھے، ہاں جب خدائی احکام کی خلاف ورزی ہوتی تو غضب کے آثار چہرہ پر نمایاں ہوتے تھے اور پھر کوئی آپ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور بے کار باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ خوشبو کو پسند اور بدبو سے نفرت فرماتے تھے، اہل کمال کی عزت بڑھاتے تھے، کبھی کبھی ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے تھے۔
لیکن اس وقت بھی وقار کے خلاف کبھی نہ بولتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن مجید تھا یعنی جس چیز کو قرآن پسند نہ کرتا تھا آپ بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے۔
(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہ و اصحابہ ابداً)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے ، بکثرت ذکر خدا کرنے والے ، لغویات سے دور ، بیہودہ پن سے نفور (بیزار) رہتے تھے۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی اور نہ کسی پر لعنت کیا کرتے تھے۔
مساکین سے محبت فرمایا کرتے ، غرباء میں وہ رہ کر خوش ہوتے ۔ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ جانا کرتے اور کسی بادشاہی کی وجہ سے برا نہ جانتے غلام و آقا۔ حبشی و ترکی میں ذرا فرق نہ کرتے۔ جنگی قیدیوں کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کرتے، جانی دشمنوں سے بکشادہ پیشانی ملتے ، مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے ، جو کوئی مل جاتے اسے پہلے سلام کرتے اور مصافحہ کے لیے خود ہاتھ بڑھاتے ، کسی کی بات قطع نہ فرماتے۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہو جاتے۔ اپنی جان پر تکلیف اٹھالیتے مگر دوسرے شخص کو ازراہِ حیا کام کرنے کو نہ فرماتے۔ زمین پر بلا کسی مسند و فرش کے تشریف رکھتے، گھر کا کام کاج بلا تکلیف کرتے، اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے۔ گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دوہ لیتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھالیتے خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے۔ بازار سے چیز خود جا کر خرید لاتے، جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے بہ رغبت کھا لیتے۔
کنبہ والوں اور خادموں پر بہت مہربان تھے۔ ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے ۔ کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے، سر مبار ک کو جھکائے رکھتے ۔ جو شخص یکبارگی آپ کے سامنے آجاتا وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو کوئی پاس آ بیٹھتا و فدائی بن جاتا۔
آپ سب سے زیادہ بہادر و شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا فوراً عطا فرما دیتے۔ سب سے زیادہ حلیم و بردبار تھے اور سب سے زیادہ حیادار۔ آپ کی نگاہ کسی کے چہرے پر ٹھہرتی نہ تھی۔ آپ ذاتی معاملات میں کسی سے انتقام نہ لیتے تھے اور نہ غصہ ہوتے تھے، ہاں جب خدائی احکام کی خلاف ورزی ہوتی تو غضب کے آثار چہرہ پر نمایاں ہوتے تھے اور پھر کوئی آپ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور بے کار باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ خوشبو کو پسند اور بدبو سے نفرت فرماتے تھے، اہل کمال کی عزت بڑھاتے تھے، کبھی کبھی ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے تھے۔
لیکن اس وقت بھی وقار کے خلاف کبھی نہ بولتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن مجید تھا یعنی جس چیز کو قرآن پسند نہ کرتا تھا آپ بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے۔
(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہ و اصحابہ ابداً)
0 comments:
Post a Comment