Monday, 4 March 2013

On The Conquest Of Makkah

Posted by Unknown on 03:24 with No comments
                        فتح مکہ کے موقع پر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ہجرت کا وہ نازک وقت یاد آیا۔ جب دشمنوں نے رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور اب اسی شہر میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکمانہ اقتدار بخشا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتدار کے باوجود بھی کسی متنفس پر زیادتی نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک بے گناہ شخص جنید بن اکوع جو مسلمانوں کے ہاتھوں غلطی سے مارا گیا تھا، اس کی دیت سو اونٹ اس کے وارثوں کو ادا کیے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ صرف چند افراد ایسے تھے کہ ان کے جرائم کی نوعیت نہایت سنگین تھی، ان کیلئے یہ فیصلہ ہوا کہ موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں اعلان فرمایا کہ ان میں سے جو شخص جہاں بھی ملے اس کو قتل کر دیا جائے خواہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف ہی کو پکڑ کر کیوں نہ کھڑا ہو۔ پھر ان سولہ میں سے تیرہ کی جان بخشی کر دی گئی۔ صرف تین آدمی مارے گئے ۔ ان تین آدمیوں میں سے دو آدمی ایسے تھے جنہوں نے مدینہ طیبہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پناہ لی تھی اور پھر لوگوں کو قتل کرکے مکہ بھاگ آئے تھے۔ تیسرے آدمی حارث بن نفیذ نے بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو سخت اذیتیں دی تھیں۔ اتنے بڑے شہر میں جہاں قدم قدم پر وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے نہ صرف مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا اور ہر قسم کی اذیتیں آپ کو دے چکے تھے بلکہ مختلف جنگوں میں بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے تھے۔ صرف تین آدمی مجرم قرار پائے اور باقی سب معاف کر دیئے گئے۔ ان معافی پانے والوں میں ابوجہل کا بیٹا عکرمہ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی وغیرہ شامل تھے۔ ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔ وہ خود تو جہنم رسید ہو چکا تھا لیکن اس کے بیٹے موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا خیال آیا۔ وہ خوف کے مارے روپوش ہو گئے تھے کیونکہ انہیں اپنے اور اپنے ماں باپ کے جرائم کی فہرست یاد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کروایا اور ان سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسن سلوک دیکھ کر وہ اسی وقت مسلمان ہو گئے۔

0 comments:

Post a Comment