Thursday 14 March 2013


یہ شکار گاہ عام نہیں تھی، سلطنت کا شہزادہ ہی یہاں شکار کھیل سکتا تھا۔
اس وقت وہ اپنے پورے دستے کے ساتھ شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔ انتہائی تیز رفتار گھوڑے، شکاری کتے اور شکار کو پکڑنے کے خاص ماہر اس دستے کے ساتھ تھے۔
جانوروں کو جھاڑیوں اور کھائیوں سے نکالنے کے لیے سپاہی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ عجیب طرح کا بے ہنگم شور مچا رہے تھے، ڈھول بجا رہے تھے، "ہاؤ ہو" کر رہے تھے۔
اچانک ایک سپاہی کی نظر ایک اجنبی پر پڑی۔ سپاہی بڑا حیران ہوا کہ جنگل کے اس حصے میں یہ کون گستاخ ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس نے گھوڑے کا رخ اس کی طرف موڑا۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
پھر جوں ہی سپاہی کی نظر اس اجنبی پر پڑی، اس نے نفرت سے منہ موڑ لیا اور اسے برا بھلا کہتا ہوا بولا:
"منحوس شخص، یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم یہ شاہی شکار گاہ ہے!"
اجنبی کوئی عام شخص نہیں تھا۔ ان کا نام شیخ جمال الدین ایرانی تھا۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ایک پرہیزگار اور نیک انسان ہیں۔
مگر تاتاری سپاہی تو اسے ایک شکست کھائی ہوئی قوم کا فرد سمجھتا تھا اور اسے بھلا ایک مسلمان عالم دین سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی۔
وہ تو دوسرے تاتاریوں کی طرح یہی سمجھتا تھا کہ تمام ایرانی بہت منحوس ہوتے ہیں۔ اگر کسی مہم کے دوران میں ان کا سامنا ہو جائے تو بس سمجھو کہ کام خراب ہوگیا۔
اسی لیے یہ سپاہی بھی سخت بد مزہ ہوا۔ اسے شیخ جمال الدین پر سخت غصہ آیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور شیخ کو گرفتار کر لیا۔
تاتاری سپاہی اپنے قیدی کو شہزادے کے سامنے لے گئے۔ اس شہزادے کا نام تغلق تیمور تھا۔ وہ تاتاریوں کے ایک بڑے قبیلے چغتائی کا ولی عہد تھا۔ ایران پر اب اسی قبیلے کی حکومت تھی۔
شہزادہ تغلق بھی شیخ جمال الدین کو دیکھ کر بڑا برہم ہوا اور اس کی زبان سے نکلا:
"تم ایرانیوں سے توایک کتا اچھا ہے!"
شیخ جمال الدین جانتے تھے کہ ان کا سامنا ایک بے رحم شہزادے سے ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے رنگ میں بھنگ ڈال دی گئی ہے۔
وہ ایک نڈر اور بہادر انسان تھے، چاہتے تو اس مغرور شہزادے کو منہ توڑ جواب دے سکتے تھے لیکن وہ انتہائی عقل مند تھے اور مو قعے کی نزاکت کو سمجھتے تھے۔ وہ شہزادے کی نفرت انگیز بات کے جواب میں بولے:
اگر ہمیں سچا دین نہ ملا ہوتا تو یقینا" ہم کتے سے بھی زیادہ برے ہوتے!"
تاتاری شہزادہ تھا تو وحشی اور بے رحم لیکن اس کا دل منافقت سے پاک تھا۔
 شیخ کے اس حملے نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اس نے شیخ کا سر قلم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بجائے حکم دیا:
"اس ایرانی کو شکار کے بعد پیش کیا جائے!"
شکار کے دوران میں تغلق شہزادہ، شیخ کی بات پر غور کرتا رہا۔
سوچتا رہا کہ اس شخص کے دین میں ایسی کون سی بات ہے جس کے بغیر یہ اپنے آپ کو حقیر ترین سمجھتا ہے اور جس کے ہوتے ہوئے یہ میرے جیسے خود سر اور بہادر شہزادے کے سامنے بھی نڈر ہوگیا ہے۔
شکار سے فارغ ہوتے ہی اس نے شیخ کو طلب کیا۔
شیخ کے آتے ہی اس نے وہاں موجود تمام لوگوں کو خیمے سے باہر جانے کا حکم دیا، پھر بولا:
"اے ایرانی! آخر بتاؤ تو سہی تمہارا دین کیا ہے، جس پر تمہیں اتنا ناز ہے۔"
شیخ اسی بہادری اور اعتماد سے بولے: "شہزادے! ہمارا دین مجھے، تمہیں، اس دنیا کے ہر انسان کو، یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے، ہر انسان نے مر جانا ہے اور مر کر اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔ پھر اس کا رب اس سے پوچھے گا کہ تم نے زندگی اچھے انسان کی طرح بسر کی یا برے انسان کی طرح؟ اگر وہ برا انسان ہوا تو اسے کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اور اگر وہ اچھا ہوا تو اسے دل پسند زندگی نصیب ہوگی۔"
شہزادے کے لیے دین کی یہ تشریح بڑی سادہ، صاف اور دل کو لگنے والی تھی۔
اس نے کہا:
"اے شیخ، مجھے اپنے دین کے بارے میں تفصیل سے بتاؤ!"
شیخ نے اسے اسلام کے متعلق مزید بتایا، پھر اس کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔
اس گفتگو نے تغلق شہزادے کے ظالم دل کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہ سوچنے لگا کہ اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو میں کبھی بادشاہ نہیں بن سکوں گا۔
 مگر ضمیر نے کہا کہ اگر تم سچے دین کے بغیر مر گئے تو کیا ہوگا؟ وہ آخر کچھ سوچ کر بولا:
"اے شیخ، اگر میں اس وقت ایمان لے آیا تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اگر میں نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ساری رعایا مسلمان ہو جائے گی۔
میں دل سے اسلام قبول کرتا ہوں لیکن اس کا اعلان بادشاہ بننے کے بعد کروں گا۔"
شیخ جمال الدین نے شہزادے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
اور پھر زمانے نے دیکھا کہ اس شہزادے نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے وزیر کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا۔
جیسے ہی ایران میں بادشاہ اور اس کے وزیر کے اسلام لانے کی خبر مشہور ہوئی، تاتاری بھی اسلام قبول کرنے لگے ۔ پہلے دن ایک لاکھ ساٹھ ہزار آدمیوں نے اسلام قبول کیا۔
اس سے قبل کہ تاتاری اسلامی تہذیب و تمدن کا نام و نشان مٹا ڈالتے، اللہ کے دین نے ان کو اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ اسلام کے دشمن، اسلام کے پاسبان بن گئے۔
تاریخ کا پہیہ گھوم کر پھر اسی جگہ آ چکا ہے جہاں مغربی طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب اور تمدن کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں اور ایسا صرف اور صرف مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔
آج پھر کسی جمال الدین کی ضرورت ہے جو یہ مان لے کہ مسلمان واقعی اسلام کے بغیر کچھ نہیں۔ جو وقت کے تاتاریوں کے دروازے پر دستک دے اور مسلمانوں سے متنفر قوموں کو اسلام سے متعارف کرائیں۔ کیا خبر اسلام کے دشمنوں ہی کو اللہ اس کا محافظ بنا دے!

0 comments:

Post a Comment