Tuesday, 9 April 2013


کراچی…سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے ڈیپوٹیشن پر تعینات 28 افسران کو روکنے کا جواز طلب کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت 16 اپریل کو اسلام آباد میں لارجر بینچ کو منتقل کردی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل دورکنی بینچ نے حکومت سندھ میں ڈیپوٹیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔سیکریٹری سروسز نصیر جمالی نے 155 افسران کو محکموں میں واپس بھیجنے کا نوٹیفکیشن پیش کیا۔ اس کے علاوہ 28 افسران کو محکموں میں روکنے کی فہرست بھی پیش کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے ان افسران کو روکنے کاجواز طلب کرتے ہوئے سندھ بھر میں او پی ایس پر کام کرنے والے افسران کی فہرست پیش کرنے کابھی حکم دیا۔ عدالت نے واپس بھیجے جانے والے افسران کی عہدے خالی کرنے کی رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے خلاف ضابطہ ترقی اور انضمام سے متعلق تمام درخواستیں 16 اپریل کو اسلام آباد میں لارجر بینچ میں سماعت کے لئے منتقل کرتے ہوئے سیکریٹری سروسز نصیر جمالی کو 16 اپریل تک چارج نہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ نصیر جمالی نے کہا کہ وہ شدید دباوٴ میں ہیں ان کا تبادلہ محکمہ خوراک میں ہوگیا ہے،مجھے جانے دیاجائے ، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ پر عدالتی دباوٴ ہے یا کوئی اور دباوٴ؟جس پر نصیر جمالی کاکہنا تھا بیرونی دباوٴ ہے اور کام کی زیادتی بھی ۔عدالت نے نصیر جمالی سے کہا کہ آپ خدمت کررہے ہیں 16 اپریل تک کام جاری رکھیں۔پولیس کے آوٴٹ اف ٹرن پروموشن سے متعلق اے ڈی آئی جی مقصود احمد نے ترقی پانے والے تمام افسروں کی تنزلی کی درخواست کی ۔ اے ڈی آئی جی مقصود احمد نے کہا کہ پندرہ سال بعد میری ترقی کی گئی ہے ترقی کی سمری ٹپی وزیر اعلیٰ ہاوٴس سے لے گیا تھا،جس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے کہ ٹپی پھر آگیا حیرت انگیز شخصیت ہے ۔

0 comments:

Post a Comment