کھویا لہجہ
اسے یاد آیا ایک دن یاسر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔۔
یار نعمان تجھے زندگی میں کسی لڑکی سے محبت ہوئی ہے ؟ اس کا انداز بے حد کھویا کھویا تھا۔
محبت ۔۔۔ نہیں ۔۔ یا شاید ہاں ۔۔۔
کوئی لڑکی اچھی تو لگی ہو گی ؟
ہاں !
پھر؟
پھر کیا؟
اس سے شادی کا خیال نہیں آیا ؟
نہیں !
میری ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ جب کسی لڑکی سے محبت ہو اور تو اس سے شادی بھی کرنا چاہے تو کبھی اپنی ماں کو نہ بتانا کہ وہ تیری پسند اور محبت ہے ۔
کیوں؟ نعمان نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
یار یہ مائیں ان سیکیور ہو جاتی ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر بیٹے نے پسند کی شادی کر لی تو انہیں گھر سے نکال دے گا۔
اس وقت نعمان نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی تھی۔ اس نے تو یاسر کے لہجے سے چھلکتا دکھ بھی محسوس نہ کیا تھا ۔ مگر جب عائشہ سے شادی کا سوچا تو یہی خدشہ سامنے آ کھڑا ہوا۔
فاطمہ کے رشتے کے وقت جب مذاق مذاق میں اپنی شادی کا ذکر کیا تو حمیدہ تڑپ اٹھیں۔
صبر کر ۔۔۔ صبر۔۔۔ دو بہنیں گھر بیٹھی ہیں ۔ پہلے انہیں تو رخصت کر لے ، اپنی پڑ گئی ہے ۔
مطلب ، بہنوں کو بیاہتے بوڑھا ہو جاؤں؟
کتنی آسانی اور سہولت سے اس کی خواہش کو کچل دیا گیا تھا ۔
کتنی بے دردی سے اس کی دل کی خوشی چھینی گئی تھی ۔
وہ بھی کسی اور نے نہیں اس کی ماں نے ۔۔۔
لفظ نہیں پھنکارتے ہوئے سانپ تھے جو اسے گھیرے ہوئے ڈس رہے تھے ۔
وہ اپنے سر کے بال نوچنے لگا ۔
کس سے پوچھے ؟
کس کو کٹہرے میں کھڑا کرے ؟
کس کا گریبان پکڑے ؟
یہ رونا ایک لڑکی کے لئے نہیں تھا ۔
یہ رونا اپنی محبت کے بچھڑنے پر بھی نہیں تھا۔
یہ رونا تو اپنی ناقدری کا تھا ۔
وہ سچ مچ اس گھر اور گھر والوں کے لئے کمانے والی مشین بن گیا تھا۔
اسے اتنے عرصے بعداب جا کر یاسر کے لہجے میں چھلکتا دکھ سمجھ میں آیا تھا۔
یار نعمان تجھے زندگی میں کسی لڑکی سے محبت ہوئی ہے ؟ اس کا انداز بے حد کھویا کھویا تھا۔
محبت ۔۔۔ نہیں ۔۔ یا شاید ہاں ۔۔۔
کوئی لڑکی اچھی تو لگی ہو گی ؟
ہاں !
پھر؟
پھر کیا؟
اس سے شادی کا خیال نہیں آیا ؟
نہیں !
میری ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ جب کسی لڑکی سے محبت ہو اور تو اس سے شادی بھی کرنا چاہے تو کبھی اپنی ماں کو نہ بتانا کہ وہ تیری پسند اور محبت ہے ۔
کیوں؟ نعمان نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
یار یہ مائیں ان سیکیور ہو جاتی ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر بیٹے نے پسند کی شادی کر لی تو انہیں گھر سے نکال دے گا۔
اس وقت نعمان نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی تھی۔ اس نے تو یاسر کے لہجے سے چھلکتا دکھ بھی محسوس نہ کیا تھا ۔ مگر جب عائشہ سے شادی کا سوچا تو یہی خدشہ سامنے آ کھڑا ہوا۔
فاطمہ کے رشتے کے وقت جب مذاق مذاق میں اپنی شادی کا ذکر کیا تو حمیدہ تڑپ اٹھیں۔
صبر کر ۔۔۔ صبر۔۔۔ دو بہنیں گھر بیٹھی ہیں ۔ پہلے انہیں تو رخصت کر لے ، اپنی پڑ گئی ہے ۔
مطلب ، بہنوں کو بیاہتے بوڑھا ہو جاؤں؟
کتنی آسانی اور سہولت سے اس کی خواہش کو کچل دیا گیا تھا ۔
کتنی بے دردی سے اس کی دل کی خوشی چھینی گئی تھی ۔
وہ بھی کسی اور نے نہیں اس کی ماں نے ۔۔۔
لفظ نہیں پھنکارتے ہوئے سانپ تھے جو اسے گھیرے ہوئے ڈس رہے تھے ۔
وہ اپنے سر کے بال نوچنے لگا ۔
کس سے پوچھے ؟
کس کو کٹہرے میں کھڑا کرے ؟
کس کا گریبان پکڑے ؟
یہ رونا ایک لڑکی کے لئے نہیں تھا ۔
یہ رونا اپنی محبت کے بچھڑنے پر بھی نہیں تھا۔
یہ رونا تو اپنی ناقدری کا تھا ۔
وہ سچ مچ اس گھر اور گھر والوں کے لئے کمانے والی مشین بن گیا تھا۔
اسے اتنے عرصے بعداب جا کر یاسر کے لہجے میں چھلکتا دکھ سمجھ میں آیا تھا۔
0 comments:
Post a Comment