Monday, 15 April 2013

Umair Bin Wahab's Conversion To Islam

Posted by Unknown on 03:00 with No comments
عمیر بن وھب کا قبولِ اسلام

عمیر بن وھب خود تومیدان بدر سے جان بچا کر لوٹ آئے ،لیکن ان کے بیٹے کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا۔
عمیر کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان اس کے نوجوان بیٹے کو باپ کے جرم کی پاداش میں سخت ترین سزا دین گے،کیونکہ اس کا پاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دردناک تکالیف پہنچاتا رہا ہے۔
ایک دن صبح کے وقت عمیر مسجد حرام میں طواف کعبہ اور بتان حرم سے برکت حاصل کرنے کے لئے آیا وہاں کیا دیکھتا ہے کہ صفوان بن امیہ حطیم کی ایک جانب بیٹھا ہوا ہے اس کے پاس آکر کہنے لگا
آقائے قریش صبح بخیر۔
صفوان نے بھی جوابا کہا۔
عمیر صبح بخیر! آئیں بیٹھ کر کچھ باتیں کریں۔آپس میں باتیں کرنے سے وقت خوب گزرے گا۔
عمیر،صفوان بن امیہ کے بالکل سامنے بیٹھ گیا دونوں آپس میں معرکہ بدر اور اس میں ہونے والے عظیم نقصانات یاد کرنے لگے اور ان قیدیوں کے نام شمار کرنے لگے جنہیں مجاہدین اسلام نے گرفتار کر لیا تھا اور وہ سرداران قریش کو یاد کر کے آنسو بہانے لگ جن کی گردنیں مسلمانوں کی تلواروں نے اڑا دی تھیں اور قلیب کنویں میں ان کی لاشوں کو پھینک دیاتھا۔
صفوان بن امیہ نے ایک لمبی سانس لی اور کہا:
بخدا! اب ان کے بعد زندہ رہنے میں کوئی مزہ نہیں ۔
عمیر نے کہا:
بخدا آپ نے بالکل سچ کہا۔پھر تھوڑی دیر خاموش رہا،پھر کہنے لگا رب کعبہ کی قسم!اگر میں مقروض اور عیال دار نہ ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی جا کر قتل کر دیتا۔پھر آہستہ سے کہنے لگا:
میرا بیٹا چونکہ ان کے قبضے میں ہے اس لئے میرا وہاں جانا چنداں شبہات پیدا نہیں کرے گاکیونکہ قیدیوں کے ورثاء کی مدینہ منورہ میں آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔
صفوان بن امیہ نے عمیر بن وھب کی اس بات کو غنیمت جانا اور سوچا یہ موقع ہاتھ سے جانےنہ دیا جائے۔اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر کہنے لگا۔
عمیر تم اب اس بات کی پرواہ نہ کرو ،تیرا جتنابھی قرض ہے میں خود ادا کروں گا۔میں تیرے اہل و عیال کی زمہ داری بھی قبول کرتاہوں ۔میرے پاس اتنا وافر مال ہے جس سے ان کی زندگی خوشگوار گزرے گی۔یہ پیشکش سن کر عمیر بولے :
اس بات کو صیغہ راز میں رکھیں اور کسی کو نہ بتائیں۔
صفوان نےکہا:تم بھی یہ بات کسی کو نہ بتانا۔
عمیر بن وھب جب مسجد حرام سے اٹھا تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیظ و غضب کی آگ اس کے سینہ میں شعلہ فگن تھی۔
اپنے ارادے کی تکمیل کے لئے اس نے تیاری شروع کر دی۔اس سفر میں اسے قطعا اس بات کا اندیشہ نہ تھا کہ کوئی اس پر شک و شبہ کرے گا کیونکہ اسیران قریش کے ورثا فدیہ دینے کی غرض سے مدینہ منورہ جا رہے تھے۔
عمیر بن وھب نے گھر آکر بیوی کو حکم دیا کہ میری تلوار تیز کرو اور اسے زہر کی پان دو۔پھر اپنی سواری طلب کی تواسے تیار کر کے ان کے سامنے لایا گیا۔یہ سوار ہو کر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے غیظ و غضب کا طوفان اپنے سینے میں چھپائے ہوئے مدینہ کی طرف چل پر ا۔
عمیر بن وھب نے مدینہ منورہ پہنچ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کر دی بالآخر مسجد نبوی کے قریب اپنی سواری سے اترا اور مسجد کی طرف چل دیا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے آپس میں جنگ بدر میں قتل ہونے والے اور گرفتار ہونے والے قریشیوں کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے اور وہ اس منظر کو بھی یاد کر رہے تھے کہ جو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے مہاجرین و انصار نے میدان بدر میں جوانمردی کے جوہر دکھائے اور اللہ تعالٰی نے ان کی مدد فرما کر انہیں عزت بخشی اور ان کے دشمن کو تباہ و برباد اورذلیل و رسوا کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن وھب کو دیکھا کہ وہ اپنی سواری سے اتر کر گلے میں تلوار لٹکائے مسجد کی طرف چلا آرہا ہے۔یہ گھبرا کر اٹھے اور فرمایا
ارے یہ کمینہ دشمن خدا عمیر بن وھب ہے۔اللہ کی قسم !یہ کسی برے ارادے سے آیا ہے۔اسی نے مکہ میں مشرکین کو ہمارے خلاف بھڑکایا تھا۔بدر سے پہلے یہ ہمارے خلاف جاسوسی کرتا رہاہے۔
پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایاـ
’’فورا اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا بنالو اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ مکار دھوکہ نہ دے جائے۔یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فورا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دشمن خدا عمیر بن وھب گلے میں تلوار لٹکائے آپ کی طرف آ رہا ہے۔میرے خیال میں اس کا ارادہ اچھا نہیںیہ کسی شرارت کی غرض سے آیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـا
اسے میرے پاس لے آو۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بڑی چابکدستی سے تلوار کا پٹہ اس کی گردن میں ڈال کر فورا اسے قابو کر لیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے اس حالت میں دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اسے چھوڑ دو،تو انہوں نے چھوڑ دیا۔
پھر آپ نے فرمایا
’’عمر! ذرا پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘ وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گئے۔
پھر عمیر بن وھب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
’’عمیر!قریب آجاؤ۔وہ قریب ہو گیا اور عرض کی صبح بخیر۔
یہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا سلام تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عمیر اللہ تعالٰی نے ہمیں تم سے بہتر سلام کا طریقہ بتا کر ہمیں عزت بخشی ہے ہم السلام علیکم کہتے ہیں اور یہ اہل جنت کا سلام ہے۔
عمیر نے کہا:
’’آپ کا سلام ہمارے سلام سے کوئی زیادہ مختلف تو نہیں،لیکن آپ اپنے مقصد میں نئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عمیر کیسے آئے ہو؟
عرض کی :میں اپنا قیدی چھڑانے آیا ہوں،جو آپ کے قبضے میں ہے براہ مہربانی اسے چھوڑ کر مجھ پر احسان فرمائیں۔
آپ نے دریافت فرمایا:
’’تیری گردن میں یہ تلوار کیوں لٹک رہی ہے؟‘‘
اس نے عرض کی:
اللہ تعالٰی نے اس تلوار کا منہ ناکارہ کر دیا ہے۔کیا آپ نے بدر کے دن ہمارے پاس کچھ رہنے بھی دیا ہے؟‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’عمیر سچ بولو،کیسے آئے ہو؟‘‘
اس نے عرض کی:
’’میں تو اسی غرض سے آیا ہوں جو میں پہلے آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں۔
آپ نے فرمایا:تم اور صفوان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے قلیب کنویں میں پھینکی گئی لاشوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
پھر تم نے یہ کہا:
’’کہ اگر میں مقروض اور عیال دار نہ ہوتا تو یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی مہم کے لئے نکل پڑتا۔
پھر صفوان بن امیہ نے تیرے تمام قرضے اور اہل وعیال کی کفالت کی اس شرط پر ذمہ داری قبول کی کہ تو مجھے قتل کر دے،لیکن اللہ تعالٰی تیرے اس گھناؤنے منصوبے کے درمیان حائل ہوگیا۔
عمیر یہ سن کر ششدر رہ گیا پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پکار اٹھاـ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علی وسلم)
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ ہمیں آسمانی خبریں بتلایا کرتے تھے تو ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ آپ پر کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوتی تھی،لیکن صفوان بن امیہ اور میرے درمیان ہونے والی گفتگو کا تو ہمارے علاوہ کسی کو علم نہ تھا۔
اللہ کی قسم! اب مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا ہے کہ یہ خبر اللہ تعالٰی نے آپ کو دی ہے۔
اللہ تعالٰی کا میں شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے آپ کے پاس لے آیا تا کہ مجھے اسلام کی ہدایت نصیب ہو۔
پھر اس نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔

0 comments:

Post a Comment