Tuesday 7 May 2013

 تھری ڈی پرنٹر سے تیار کی گئی دنیا کی پہلی بندوق کو امریکہ میں کامیابی کے ساتھ چلایا گیا ہے۔
ڈیفنس ڈسٹریبیوٹڈ نامی متنازعہ گروپ جس نے یہ بندوق تیار کی ہے وہ انٹر نیٹ پر دستیاب بلو پرنٹ کے ذریعے مزید اسلحہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس گروپ نے اس بندوق کو تیار کرنے کے لیے ایک سال تک کوشش کی جس کا جنوبی آسٹن کے ٹیکسس شہر کے ایک فائرنگ رینج میں سنیچر کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔
اس بندوق کے خلاف مہم چلانے والوں نے اس منصوبے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
یورپ کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یوروپول کے سائبر کرائم سنٹر کی وکٹوریہ بینز نے کہا ہے کہ ’موجودہ مجرم ہتھیار خریدنے کے روایتی ذرائع پر ہی زیادہ انحصار کریں گے۔‘
بہر حال انھوں نے کہا کہ ’وقت کے ساتھ جب یہ ٹیکنالوجی لوگوں کے لیے زیادہ آسان اور سستی ہو جائے گی تو ایسے میں ممکن ہے کہ اس کے خطرے بڑھ جائيں۔‘

چیز دیگر

"ہاں مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس کا استعال کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو سکتا ہے۔ یہ چیز ہی ایسی ہے۔ آخر کار یہ بندوق ہے"
واضح رہے کہ ڈیفنس ڈسٹری بیوٹڈ کے سربراہ ٹیکساس یونیورسٹی کے قانون کے 25 سالہ طالب علم کوڈی ولسن ہیں۔
ولسن نے کہا: ’میرے خیال سے لوگ اس بات کی توقع نہیں کر رہے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔‘
تھری ڈی پرنٹنگ کو مینوفیکچرنگ کے مستقبل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پیچیدہ ٹھوس چیز کو پرنٹ کرنے کے لیے پلاسٹک کی تہ بہ تہ سطح رکھی جاتی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ جب یہ پرنٹرز سستے ہو جائیں گے تو لوگ بجائے دکان میں چیزیں خرید نے کے کسی ڈیزائن کو ڈاؤن لوڈ کر کے اس کا پرنٹ گھر پر ہی لے لیں گے۔
لیکن تمام نئی ٹیکنالوجی کی طرح جہاں اس کے فوائد ہیں وہیں ان کے نقصانات بھی ہیں۔
جو بندوق تھری ڈی پرنٹر کے ذریعہ بنائی گئی ہے ای بے کی ویب سائٹ پر اس کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر رکھی گئي ہے۔
اس کے مختلف پرزوں اور حصوں کو اے بی ایس پلاسٹک سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اسے یکجا کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس کے فائرنگ پن کو صرف دھات سے تیار کیاگیا ہے۔
مسٹر ولسن جو خود کو ’مخفی تخریب کار‘ کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیزائن کو عام کرنے کا ان کا منصوبہ ’آزادی کے لیے‘ ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’گن کی مانگ ہے اور ایسے ممالک بھی ہیں جو کہتے ہیں آپ اسلحہ نہیں رکھ سکتے لیکن اب اس میں سچائی نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’میں ایک ایسی دنیا دیکھ رہا ہوں جو ٹیکنالوجی کی ہے کہ آپ جو چاہیں وہ رکھ سکتے ہیں۔ اب یہ سیاسی کھلاڑیوں کے بس سے باہر کی بات ہے۔‘
جب ان سے دریافت کیاگيا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ کسی کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے تو انھوں نے کہا ’ہاں مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس کا استعمال کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو سکتا ہے۔ یہ چیز ہی ایسی ہے۔ آخر کار یہ بندوق ہے۔‘
بہرحال انھوں نے کہا ’لیکن میرے خیال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے نہ بنایا جائے۔‘
اس گن کو بنانے کے لیے ولسن کو مینوفیکچرنگ کا لائسنس دینے والے امریکی بیورو اے ٹی ایف سے لائسنس حاصل کرنا پڑا۔

0 comments:

Post a Comment