Tuesday 7 May 2013

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ قطبی علاقوں میں پائی جانے والی لومڑیوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی کی وجہ یہ ہے کہ وہ پارے سے ہونے والی زہرآلودگی کا شکار ہوئی ہیں۔
یہ لومڑیاں سمندری حیات کا شکار کرتی ہیں۔
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ایک روسی جزیرے پر لومڑیوں کی تعداد بڑی حد تک کم ہونے میں پارے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے لومڑیوں کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ تحقیق پی ایل او ایس ون نامی رسالے میں شائع ہوئی ہے۔
گذشتہ ایک صدی میں دنیا کے سمندروں میں پارے کی مقدار دوگنی ہو گئی ہے، اور قطبین میں دنیا کے کسی حصے سے زیادہ پارہ جمع ہوا ہے۔
آرکٹک کونسل کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں قطبین میں موجود شکاری جانوروں کے جسموں میں پارے کی مقدار میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
اب تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے کہا ہے کہ قطبی لومڑیوں کی مختلف آبادیوں کے جسموں میں پارے کی خاصی بڑی مقدار پائی گئی ہے۔
شمالی بحرِالکاہل میں ایک روسی جزیرے میں لومڑیاں سمندری پرندوں پر گزربسر کرتی ہیں اور کبھی کبھار مردہ سیل بھی کھا لیتی ہیں۔
1970 کے عشرے میں اس جزیرے پر لومڑیوں کی تعداد میں پراسرار طور پر کمی واقع ہو گئی تھی۔ اب اگرچہ لومڑیوں کی آبادی مستحکم ہے لیکن ان میں سے کئی کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور ان کا وزن کم ہے۔ انھیں معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
ایک وقت میں سائنس دانوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ لومڑیوں کی تعداد میں کمی کسی انفیکشن کی وجہ سے ہو رہی ہے، لیکن اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی تھی۔
ڈاکٹر گیبور چرایک جرمنی میں جانوروں پر تحقیق کے ادارے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم نے مختلف قسم کے جراثیم کا جائزہ لینا شروع کیا جو اس مرض کا باعث بن سکتے ہوں، لیکن ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں ملی۔‘
لیکن جب انھوں نے لومڑیوں کے جسموں اور ان کی خوراک کا تجزیہ کیا تو اس میں پارے کی بڑی مقدار پائی گئی۔
ڈاکٹر چیرایک کہتے ہیں، ’اس قدر بڑی مقدار لومڑیوں کی حالت کی وضاحت کرتی ہے۔‘
جب ان لومڑیوں کا تقابل آئس لینڈ کی لومڑیوں سے کیا گیا تو بڑی مختلف تصویر سامنے آئی۔ یہ لومڑیاں سمندر سے دور رہتی ہیں اور یہ غیر سمندری پرندوں اور چوہوں کا شکار کرتی ہیں۔ ان کے جسموں میں پارے کی بہت کم مقدار پائی گئی۔

0 comments:

Post a Comment