سلطان
محمود غزنوی مشہور مسلمان بادشاہ گزرے ہیں ،وہ موجودہ دور کے مسلمان
حکمرانوں جیسے مسلمان نہیں تھے بلکہ دین کو سمجھنے والے اور اسلامی تعلیمات
پر عمل کرنے والے بادشاہ تھے۔انہوں نے 997سے 1030ء تک افغانستان پر حکومت
کی ۔ایک بار ان کے دل میں تین اشکال )شکوک (پیدا ہوگئے اوران کی شدید خواہش
تھی کہ انہیں ان اشکال کے جواب مل جائیں ۔اور ذہن ان شکوک سے پاک ہوجائے۔
پہلا اشکال اس حدیث کے متعلق تھا جس کا مفہوم ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"سلطان کو اس حدیث پر یہ اشکال تھا کہ یہ علم دین حاصل کرنے والے طلاب اور علماء تو انبیاء کے وارث ہیں مگر میں ایک مسلمان بادشاہ ہوں اور اللہ کے راستے میں خیرات کرتا ہوں اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں تو میں کیوں نبیوں کا وراث نہیں ہوسکتا۔ اسے اشکال ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث کسی نے اپنے پاس سے بنائی ہو اور حقیقت میں ایسا نہ ہو۔
دوسرا اشکال یہ واقع ہو کہ لوگوں نے اسے کہا کہ تو سبگتگین کا بیٹا نہیں ہے بلکہ اس نے تجھے غلام کے طور پر خریدا اور تجھے محبت اور پیار سے رکھا اس لئے اپنا بیٹا بنایا حالانکہ حقیقت میں تو اس کا بیٹا نہیں ،بلکہ تیرے باپ کا کوئی پتہ نہیں کون تھا۔سلطان کو بہت تشویش ہوئی کہ وہ خود کو سبگتگین کا بیٹا سمجھتا رہا مگر لوگوں کے مطابق اس کے باپ کا کسی کو پتہ ہی نہیں اور وہ سبگتگین کا بیٹا نہیں بلکہ غلام ہے۔
تیسرا اشکال یہ تھا کہ اگرچہ اس نے بہت سے نیک کام کیے اور رعایا کو خوش رکھا ظلم اور ناانصافی سے دور رہا ،اس سب کو با وجود اس کی بخشش ہوگی یا نہیں ۔چونکہ سلطان محمود غزنوی ایک سچا مسلمان تھا لہذا اس کے دل میں خواہش تھی کہ اسے دنیا میں ہی پتہ چل جائے کہ اس کی بخشش ہو گی یا نہیں ۔
چنانچہ ایک رات وہ اپنے مشیروں اور مشعل برداروں کے ساتھ رات سیرو سیاحت میں محو تھا کہ اچانک اس کی نظر کچھ دورایک کبابی دوکان پر کھڑے ایک طالب علم پر پڑی جو بھٹی کی روشنی میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اور کوئی دینی مدرسہ کا طالب علم معلوم ہوتا تھا ،سلطان نے دیکھا کہ کبابی اسے با ر بار بھگا دیتا مگر وہ لڑکا کچھ دیر بعد پھر آجاتا اور مطالعہ میں مصروف ہوجاتا۔سلطان اس طالب علم کی محنت او ر لگن سے متاثر ہوااور اپنے ایک مشعل بردار سے کہا کہ جاؤ اور اس طالب علم کی مشکل اپنی مشعل کی روشنی سےآسان کردو چنانچہ مشعل بردار اس طالب علم کے پاس چلا گیا۔
سلطان اس و اقعہ سے فارغ ہوکر جب محو استراحت ہو ا تو اسے خواب میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور اللہ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کا مفہوم ہے :
"اے سبگتگین کے بیٹےتو نے انبیاء کے ایک وارث کی مدد کی اور اس کی مشکل کو آسان کیا اس کے صلے میں اللہ نے تیری بخشش فرمائی۔"
سلطان کو اپنے تینوں اشکال کا جواب ایک ایسی شخصیت سے مل چکا تھا جن کی کسی بھی بات پر شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
1 حدیث کے متعلق کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔
2 اس کا باپ سبگتگین ہی تھا کیونکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے باپ کے نام سے پکارا۔
3 انبیاء کے وارث کی مدد کرنے پر بخشش کی بشارت دے دی گئی۔
یہ تھے دور ماضی کے مسلما ن بادشاہ جن کے اشکال کے جواب بھی حضور نے خود ان کی خواب میں آکر دیے۔اللہ ہمیں بھی ایسے ہی سچے اور پکے مسلمان بادشاہ نصیب فرمائے۔
پہلا اشکال اس حدیث کے متعلق تھا جس کا مفہوم ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"سلطان کو اس حدیث پر یہ اشکال تھا کہ یہ علم دین حاصل کرنے والے طلاب اور علماء تو انبیاء کے وارث ہیں مگر میں ایک مسلمان بادشاہ ہوں اور اللہ کے راستے میں خیرات کرتا ہوں اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں تو میں کیوں نبیوں کا وراث نہیں ہوسکتا۔ اسے اشکال ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث کسی نے اپنے پاس سے بنائی ہو اور حقیقت میں ایسا نہ ہو۔
دوسرا اشکال یہ واقع ہو کہ لوگوں نے اسے کہا کہ تو سبگتگین کا بیٹا نہیں ہے بلکہ اس نے تجھے غلام کے طور پر خریدا اور تجھے محبت اور پیار سے رکھا اس لئے اپنا بیٹا بنایا حالانکہ حقیقت میں تو اس کا بیٹا نہیں ،بلکہ تیرے باپ کا کوئی پتہ نہیں کون تھا۔سلطان کو بہت تشویش ہوئی کہ وہ خود کو سبگتگین کا بیٹا سمجھتا رہا مگر لوگوں کے مطابق اس کے باپ کا کسی کو پتہ ہی نہیں اور وہ سبگتگین کا بیٹا نہیں بلکہ غلام ہے۔
تیسرا اشکال یہ تھا کہ اگرچہ اس نے بہت سے نیک کام کیے اور رعایا کو خوش رکھا ظلم اور ناانصافی سے دور رہا ،اس سب کو با وجود اس کی بخشش ہوگی یا نہیں ۔چونکہ سلطان محمود غزنوی ایک سچا مسلمان تھا لہذا اس کے دل میں خواہش تھی کہ اسے دنیا میں ہی پتہ چل جائے کہ اس کی بخشش ہو گی یا نہیں ۔
چنانچہ ایک رات وہ اپنے مشیروں اور مشعل برداروں کے ساتھ رات سیرو سیاحت میں محو تھا کہ اچانک اس کی نظر کچھ دورایک کبابی دوکان پر کھڑے ایک طالب علم پر پڑی جو بھٹی کی روشنی میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اور کوئی دینی مدرسہ کا طالب علم معلوم ہوتا تھا ،سلطان نے دیکھا کہ کبابی اسے با ر بار بھگا دیتا مگر وہ لڑکا کچھ دیر بعد پھر آجاتا اور مطالعہ میں مصروف ہوجاتا۔سلطان اس طالب علم کی محنت او ر لگن سے متاثر ہوااور اپنے ایک مشعل بردار سے کہا کہ جاؤ اور اس طالب علم کی مشکل اپنی مشعل کی روشنی سےآسان کردو چنانچہ مشعل بردار اس طالب علم کے پاس چلا گیا۔
سلطان اس و اقعہ سے فارغ ہوکر جب محو استراحت ہو ا تو اسے خواب میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور اللہ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کا مفہوم ہے :
"اے سبگتگین کے بیٹےتو نے انبیاء کے ایک وارث کی مدد کی اور اس کی مشکل کو آسان کیا اس کے صلے میں اللہ نے تیری بخشش فرمائی۔"
سلطان کو اپنے تینوں اشکال کا جواب ایک ایسی شخصیت سے مل چکا تھا جن کی کسی بھی بات پر شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
1 حدیث کے متعلق کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔
2 اس کا باپ سبگتگین ہی تھا کیونکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے باپ کے نام سے پکارا۔
3 انبیاء کے وارث کی مدد کرنے پر بخشش کی بشارت دے دی گئی۔
یہ تھے دور ماضی کے مسلما ن بادشاہ جن کے اشکال کے جواب بھی حضور نے خود ان کی خواب میں آکر دیے۔اللہ ہمیں بھی ایسے ہی سچے اور پکے مسلمان بادشاہ نصیب فرمائے۔
0 comments:
Post a Comment