Thursday, 20 June 2013

کاشانۂ نبوت کا محاصرہ
کفار مکہ نے اپنے پروگرام کے مطابق کاشانۂ نبوت کو گھیر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سو جائیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ اس وقت گھر میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس صرف علی مرتضیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ کفار مکہ اگرچہ رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس امانت رکھتے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی بہت سی امانتیں کاشانۂ نبوت میں تھیں۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو اور میرے چلے جانے کے بعد تم قریش کی تمام امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر مدینہ چلے آنا۔

یہ بڑا ہی خوفناک اور بڑے سخت خطرہ کا موقع تھا۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھا کہ کفار ِ مکہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں مگر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ تم قریش کی ساری امانتیں لوٹا کر مدینہ چلے آنا حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو یقین کامل تھا کہ میں زندہ رہوں گا اور مدینہ پہنچوں گا اس لئے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر جو آج کانٹوں کا بچھونا تھا۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بستر پر صبح تک آرام کے ساتھ میٹھی میٹھی نیند سوتے رہے۔ اپنے اسی کارنامے پر فخر کرتے ہوئے شیر خدا نے اپنے اشعار میں فرمایا کہ

وَقَيْتُ بِنَفْسِيْ خَيْرَ مَنْ وَطِئَ الثَّريٰ

وَمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ وَ بِالْحَجَرِ

میں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس ذات گرامی کی حفاظت کی جو زمین پر چلنے والوں اور خانہ کعبہ و حطیم کا طواف کرنے والوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بلند مرتبہ ہیں۔

رَسُوْلُ اِلٰه خَافَ اَنْ يَّمْکُرُوْا بِه

فَنَجَّاه ذُوالطَّوْلِ الْاِلٰه مِنَ الْمَکْرِِ

رسول خدا صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کفار مکہ ان کے ساتھ خفیہ چال چل جائیں گے مگر خداوند مہربان نے ان کو کافروں کی خفیہ تدبیر سے بچا لیا۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۲۲)

حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بستر نبوت پر جان ولایت کو سلا کر ایک مٹھی خاک ہاتھ میں لی اور سورہ یس کی ابتدائی آیتوں کو تلاوت فرماتے ہوئے نبوت خانہ سے باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے کافروں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے مجمع سے صاف نکل گئے۔ نہ کسی کو نظر آئے نہ کسی کو کچھ خبر ہوئی۔ ایک دوسرا شخص جو اس مجمع میں موجود نہ تھا اس نے ان لوگوں کو خبر دی کہ محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تو یہاں سے نکل گئے اور چلتے وقت تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں۔ چنانچہ ان کور بختوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو واقعی ان کے سروں پر خاک اور دھول پڑی ہوئی تھی۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۵۷)

رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام ” حزورہ” کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ ” کعبہ ” کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہو چکی تھی۔ وہ بھی اسی جگہ آ گئے اور اس خیال سے کہ کفار مکہ ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا اور اس طرح خاردار جھاڑیوں اور نوک دار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات “غارِ ثور” پہنچے۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۵۸)
غار ثور

حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر حضور اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی گودمیں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا مگر حضرت صدیق جاںنثار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمت ِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خوابِ راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پرنثار ہو گئے۔ جس سے رحمت ِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔
پوچھا ابوبکر! کیا ہوا؟
عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا۔ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین رات اس غار میں رونق افروز رہے۔

جبل ثور

حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے جوان فرزند حضرت عبدﷲ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں؟ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کر دیتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کچھ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور ان بکریوں کا دودھ دونوں عالم کے تاجدار صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے یار غار پی لیتے تھے۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۳۹)

حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تو غار ثور میں تشریف فرما ہو گئے۔ اُدھر کاشانۂ نبوت کا محاصرہ کرنے والے کفار جب صبح کو مکان میں داخل ہوئے تو بستر نبوت پر حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ ظالموں نے تھوڑی دیر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھ گچھ کر کے آپ کو چھوڑ دیا۔ پھر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو میں مکہ اور اطراف و جوانب کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر اس وقت خداوندی حفاظت کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر کفار قریش آپس میں کہنے لگے کہ اس غارمیں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کچھ گھبرائے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آ گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰه مَعَنَا

مت گھبراؤ! خدا ہمارے ساتھ ہے۔
اس کے بعد ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے قلب پر سکون و اطمینان کا ایسا سکینہ اُتار دیا کہ وہ بالکل ہی بے خوف ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی یہی وہ جاں نثاریاں ہیں جن کو دربار نبوت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کیا خوب کہا ہے کہ

وَثَانِيُ اثْنَيْنِ فِي الْغَارِ الْمُنِيْفِ وَ قَدْ

طَافَ الْعَدُوُّ بِه اِذْ صَاعَدَ الْجَبَلَا

اور دو میں کے دوسرے (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جب کہ پہاڑ پر چڑھ کر بلند مرتبہ غار میں اس حال میں تھے کہ دشمن ان کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا۔


وَکَانَ حِبَّ رَسُوْلِ اﷲِ قَدْ عَلِمُوْاْ

مِنَ الْخَلَائِقِ لَمْ يَعْدِلْ بِه بَدَلَاْ

اور وہ (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے محبوب تھے۔ تمام مخلوق اس بات کو جانتی ہے کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علہہ وسلم نے کسی کو بھی ان کے برابر نہیں ٹھہرایا ہے۔
(زرقانی علی المواهب ج ۱ص ۳۳۷)

بہر حال چوتھے دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یکم ربیع الاول دو شنبہ کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبدﷲ بن اریقط جس کو رہنمائی کے لئے کرایہ پر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نوکر رکھ لیا تھا وہ قرارداد کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک اونٹنی پر حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بیٹھے اور عبدﷲ بن اُریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔

0 comments:

Post a Comment