اچانک موت
غالباََ
١٩٩٥ کی سردیاں جا رہی تھیں ۔ ہم نے بذریعہ ویگن سہوان شریف حضرت لعل
شہباز قلندر کے مزار پر جانے کا پروگرام بنایا ۔ ٹرپ میں مردوں کے علاوہ
خؤاتین اور بچے بھی تھے ۔ سفر کا آغاز رات ایک بجے ہوا ۔ راستے میں پہلا
پڑاؤ ہمارا صادق آباد تھا ۔ وہاں ہم نے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ہلکا
پھلکا ناشتہ کیا اور پھر ٦ بجے دوبارہ سفر کیلئے تیار ہو گئے ۔ میں ڈرائیور
کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ اس کا نام ولائتی شاہ تھا
وہ بہت خوش مزاج تھا ۔ اس نے میری فرمائش پر BBC لگا دیا ۔ میں سفر کے ساتھ ساتھ ریڈیو پروگرام سے محظوظ ہو رہا تھا ۔ پنجاب کی آخری پولیس چوکی ،، چوک سبزل ،، ہے ۔ وہاں موجود پولیس والوں نے اشارہ کیا اور ویگن نے سٹاپ لیا ۔ کاغذات ہمارے پاس مکمل تھے ۔ ایک کانسٹیبل نے ڈرائیور کو نیچے آ کر روٹ پرمٹ دکھانے کے لئے کہا ۔ ڈرائیور صاحب کچھ نروس ہو گئے تعمیل حکم کے لئے نیچے اترے لیکن اپنے آپ کو سنبھال نا سکے شاید اس لئے روڈ پر دھڑام سے گر گئے ان کا گرنا تھا کہ ایک شور مچ گیا ۔۔۔۔۔ ڈرائیور صاحب گر گئے ہیں ویگن میں موجود تمام مرد و زن اس اچانک واقعہ پر حیران و پریشان ۔وہاں سڑک پر بھی ایک جم غفیر جمع ہو گیا ۔ اس شور گل نے مجھے بھی چونکا دیا اور میں بھی حواس باختہ ننگے پاؤں نیچے آیا اور ڈرائیور کی حالت دیکھی ، نبض ٹٹولی تو دل تھام کر رہ گیا کیونکہ وہ صاحب دل کی بازی ہار چکے تھے ۔ خیر ہم نے وہاں موجود پولیس والوں کو سخت سست کہا اور نا جانے ان کو کن کن القابات سے نوازا ۔وہ بھی سٹپٹا گئےکہ آن واحد میں یہ کیا ہو گیا ۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا فوراََ ایک کار ارینج کروائی ہم اس کو ساتھ لے کر میڈیکل سنٹر پہنچے مگر افسوس ! وہاں پر موجود ڈاکٹر نے میڈیکل چیک اپ کے بعد بوجہ ہارٹ اٹیک اس کی موت کی تصدیق کر دی ۔ اس اچانک افتاد کی وجہ سے ہم پریشاں اور سرگرداں کہ الہی یہ کیا ماجرا آخر کیا ہے ۔ اجنبی جگہ پر ہم کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے۔ وہاں سے ہم نے ایک اور ویگن اس ڈیڈ باڈی کے لئے ہائیر کی اور پھر یوں ہم ڈیڈ باڈی کے ساتھ واپس گھروں کو لوٹے ۔ قدرت نے ہمیں تو بچا لیا لیکن بیچارے ڈرائیور کی اچانک موت کا صدمہ ہر کسی کو تھا ۔ اس کے لواحقین نے بتایا کہ وہ ایک ہفتہ قبل ہی کراچی سے لوٹا تھا ۔ اگر دوران سفر ہی اس کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا جبکہ اس وقت ویگن ١٠٠ کلومیٹر کی رفتار سے رواں دواں تھی تو ناجانے آج ہم کہاں ہوتے ۔ آج بھی یہ سوچ کر جسم اور روح کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے
وہ بہت خوش مزاج تھا ۔ اس نے میری فرمائش پر BBC لگا دیا ۔ میں سفر کے ساتھ ساتھ ریڈیو پروگرام سے محظوظ ہو رہا تھا ۔ پنجاب کی آخری پولیس چوکی ،، چوک سبزل ،، ہے ۔ وہاں موجود پولیس والوں نے اشارہ کیا اور ویگن نے سٹاپ لیا ۔ کاغذات ہمارے پاس مکمل تھے ۔ ایک کانسٹیبل نے ڈرائیور کو نیچے آ کر روٹ پرمٹ دکھانے کے لئے کہا ۔ ڈرائیور صاحب کچھ نروس ہو گئے تعمیل حکم کے لئے نیچے اترے لیکن اپنے آپ کو سنبھال نا سکے شاید اس لئے روڈ پر دھڑام سے گر گئے ان کا گرنا تھا کہ ایک شور مچ گیا ۔۔۔۔۔ ڈرائیور صاحب گر گئے ہیں ویگن میں موجود تمام مرد و زن اس اچانک واقعہ پر حیران و پریشان ۔وہاں سڑک پر بھی ایک جم غفیر جمع ہو گیا ۔ اس شور گل نے مجھے بھی چونکا دیا اور میں بھی حواس باختہ ننگے پاؤں نیچے آیا اور ڈرائیور کی حالت دیکھی ، نبض ٹٹولی تو دل تھام کر رہ گیا کیونکہ وہ صاحب دل کی بازی ہار چکے تھے ۔ خیر ہم نے وہاں موجود پولیس والوں کو سخت سست کہا اور نا جانے ان کو کن کن القابات سے نوازا ۔وہ بھی سٹپٹا گئےکہ آن واحد میں یہ کیا ہو گیا ۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا فوراََ ایک کار ارینج کروائی ہم اس کو ساتھ لے کر میڈیکل سنٹر پہنچے مگر افسوس ! وہاں پر موجود ڈاکٹر نے میڈیکل چیک اپ کے بعد بوجہ ہارٹ اٹیک اس کی موت کی تصدیق کر دی ۔ اس اچانک افتاد کی وجہ سے ہم پریشاں اور سرگرداں کہ الہی یہ کیا ماجرا آخر کیا ہے ۔ اجنبی جگہ پر ہم کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے۔ وہاں سے ہم نے ایک اور ویگن اس ڈیڈ باڈی کے لئے ہائیر کی اور پھر یوں ہم ڈیڈ باڈی کے ساتھ واپس گھروں کو لوٹے ۔ قدرت نے ہمیں تو بچا لیا لیکن بیچارے ڈرائیور کی اچانک موت کا صدمہ ہر کسی کو تھا ۔ اس کے لواحقین نے بتایا کہ وہ ایک ہفتہ قبل ہی کراچی سے لوٹا تھا ۔ اگر دوران سفر ہی اس کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا جبکہ اس وقت ویگن ١٠٠ کلومیٹر کی رفتار سے رواں دواں تھی تو ناجانے آج ہم کہاں ہوتے ۔ آج بھی یہ سوچ کر جسم اور روح کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے
0 comments:
Post a Comment