Sunday 7 July 2013

ہجرت کا دوسرا سال

مدینہ سے روانگی

چنانچہ ۱۲ رمضان ۲ ھ کو بڑی عجلت کے ساتھ لوگ چل پڑے، جو جس حال میں تھااسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔

مگر جب مکہ میں یہ خبر پھیلی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار قریش کی فوج کا دل بادل مسلمانوں پر حملہ کر نے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفار قریش کے قافلہ سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔
ارشاد گرامی سن کر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔

انصار میں سے قبیلۂ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے؟ خدا کی قسم ! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۶۴)

مدینہ سے ایک میل دور چل کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا، جو لوگ کم عمر تھے ان کو واپس کر دینے کا حکم دیا کیونکہ جنگ کے پر خطر موقع پر بھلا بچوں کا کیا کام؟

0 comments:

Post a Comment