ہجرت کا دوسرا سال
لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہا کہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ؟ میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابوجہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کر ابوجہل کے پاس گئے تو ابوجہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا اور کہا کہ ہاں ہاں ! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابوجہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے “ واعمراہ وا عمراہ” کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر “خون کا بدلہ خون” کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابوجہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیا اور کہا کہ ابوجہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کے دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات در پیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہا کہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ؟ میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابوجہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کر ابوجہل کے پاس گئے تو ابوجہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا اور کہا کہ ہاں ہاں ! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابوجہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے “ واعمراہ وا عمراہ” کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر “خون کا بدلہ خون” کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابوجہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیا اور کہا کہ ابوجہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کے دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات در پیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
0 comments:
Post a Comment