Monday 22 July 2013

Harsh Sunlight Travel

Posted by Unknown on 04:33 with No comments
 کڑی دھوپ کا سفر
وہ گرنے کے بعد بہت رو رہی تھی۔ دیکھنے والوں کی ترس بھری نظریں اس کی طرف اُٹھیں لیکن اس سے پہلے کہ کوئی ہمدردی سے اسے اُٹھاتا ایک آواز سنائی دی ’’کیاپہلی دفعہ گری ہے جو روتی ہے، یہ سدا کا دکھ ہے، تجھے اس کے ساتھ جینا ہے۔‘‘

اس آواز کے ساتھ ہی وہ روتی لڑکی ترس بھرے ہاتھوں کا سہارا ملنے سے پہلے ہی چب ہوچکی تھی۔ شاید دس بارہ سال کی اس کم سن اور کمزور لڑکی نے جان لیا تھا کہ ماں جیسی رحیم ہستی کے یہ الفاظ اس کی زندگی کی تیاری کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔

اب اس بات کو30سال ہونے کو آئے، اس لڑکی نے مدد کے لئے کسی کی طرف نہیںدیکھا۔ چارفٹ قد اور20کلو وزن کی حامل ہے یہ لڑکی عام شخص کے انگوٹھے جیسی کلائیوں اور ٹیڑھی انگلیوں کے ساتھ زندگی کا سامنا پوری بہادری سے کرتی آرہی ہے۔

اپنی زندگی کے 30سالوں کی کہانی سناتے ہوئے وہ لفظ لفظ پر کھوجاتی ہے۔ کبھی مسرتیں اس کے چہرے کا احاطہ کرتیں ہیں تو کبھی کرب یہاں سے وہاں تک ڈیرے جما لیتا ہے۔ کسی انسان دوست کا ذکر کرتے آنکھیں اور لہجہ بھیگ بھیگ جاتے ہیں۔

وہ ڈیڑھ سال تک گھر بھر میں پہلی اور خوبصورت اولادہونے کے ناطے ماں باپ اور دادا دادی کی بہت لاڈلی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے خسرہ حملہ آور ہوا کبھی بخارہوتا کبھی نہ ہوتا۔ بخار نہ ہونے پر ایک دن والدہ نے نہلا کر جھولے میں سلا دیا۔ یہ سوچ کر کہ گرمی ہے پنکھا چلادیا۔

بخار دوبارہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ایک ٹانگ اور چہرے کے علاوہ پورا جسم مفلوج ہوگیا، یہاں تک کہ معمولی حرکت کے بھی قابل نہ رہا۔ سال ڈیڑھ سال تک ڈاکٹر انور کُنور سے علاج اور والدین کی ان تھک محنت نے اسے اس قابل کردیا کہ مفلوج حصوں میں حرکت ہونے لگی۔ مزید ایک سال چار پائی پررہنے کے بعد دو بارہ چلنا شروع کیا۔

دو قدم چلنے کے بعد گر جاتی، لنگڑاپن، زبان میں شدید تتلاہٹ اور بے انتہا کمزوری دیکھ کر ماں چھپ چھپ کر روتی۔ ہاں بیٹی کے سامنے مضبوط چٹان کی طرح رہتی۔ محبت سے، سختی سے، تندی سے حوصلہ دیے جاتی ۔ لوگوں کے لفظوں سے گھائل ہونے کے بعد دکھ سے پڑنے رہنے کے بجائے ہمت سے کام لینے کا حوصلہ پیدا کرتی۔

وہ بتاتی ہیں کہ’’ میرے والد دھیمے، شفیق لہجے میں، چہرے پر مسکراہٹ لیے اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور عملاً اس کا خیال رکھتے۔ ہاتھوں میں قلم پکڑناسکھانے سے لیکر آج تک ہر لمحہ وہ سایہ کی طرح میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ کم وسیلہ اور کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود انھوں نے مجھے ناکارہ وجود نہیں سمجھا۔ گھر میں ایک طرف ڈالنے کی بجائے انھوں نے میری تعلیم و تربیت اور پڑھائی لکھائی پر دوسرے بہن بھائیوں کی طرح پوری توجہ دی۔‘‘

دادا اور دادی نے نماز، قرآن پاک پڑھنے اور اللہ سے محبت کرنے کا ہنر بخشا اور تصور دیاکہ اللہ سے مضبوط رشتہ قائم ہو جائے تو تکالیف آسان ہوجاتی ہیں۔ اٹھ غافلا پڑھ لے نماز ویلا بیت جاندا اے کے جادو اثر الفاظ کے ساتھ دادا صبح جگاتے تو زندگی تماتر تکالیف کے باوجود امانت خداوندی محسوس ہوتی۔

ایسے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی ’’10عمال قرآنی،،زادِ راہ بنتی۔ بہن بھائیوںاور دوستوں کی محبتوں نے جینے کا حوصلہ بخشا۔حفیظ اورحمیدہ جیسی مخلص بہنوں کو اگر زندگی سے نکال دیا جئے تو نائلہ شاید وہ کبھی نہ بن پاتی جو اب ہے۔

’’گڑیا تمھارے پاس دماغ بہت بڑی نعمت ہے جب تم کامیاب ہوجائوں گی تو تمھارے جسمانی نقائص بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ اور پھر انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا کہ کیا بہن کو کامیاب انسان بنانا ہے اس کی زندگی میں صفیہ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسی تھی۔

انھوں نے قرآن پاک پڑھایا، تعلیم میں مدد کی اور جب اخراجات کے لیے کچھ مزید سیلوںکی ضرورت محسوس ہوئی تو خاموشی کے ساتھ اپنے پاس پڑھنے والے بچوں میں سے چند کو ٹیوشن کے لیے نائلہ کے پاس بھجوادیا۔ اس کم سن عمر میں صیفہ کا اتنا بڑا دل دیکھ کر نائلہ نے اس جیسی ٹیچر بننے کا فیصلہ کرلیا۔

واپڈا گرلز ہائی سکول چشمہ سے میٹرک کرنے کے بعد میانوالی گرلز کالج کا گھنٹہ بھر کا بس کا سفر ایک امتحان کی طرح ہی تھا۔ اللہ نے ا س توقع پر ماتواں لڑکی کے لئے میری رفعت نواز جیسی انسان کو صحت اور قوت کا نشان بنا رہا۔ بی-اے مکمل ہوگیا۔

اب ایک اور امتحان سامنے تھا۔وہ جو دو قدم چلنے کے بعد تیسرا قدم اٹھاتے ہوئے گر جاتی تھی اس نے فیصل آباد سے ریگولر لی۔ ایڈکرنے کی ٹھان لی۔ والدین شدید پریشان تھے۔ ایک طرف مستقبل کی آس انھیں ایسا کرنے کا حوصلہ دیتی تو دوسری طرف بیٹی کی ناتوانی اورمعذوری ہمیں پست کردیتی۔

لیکن اللہ کا کرم شامل حال ہوا اور وہاں زہادہ، آمنہ، شائستہ، کوثر اور لبنیٰ جیسی دوستوں ملیں جو نائلہ کی مضبوطیاورسہارا بن گئیں۔ یہاں تک کہ ہوسٹل کی لڑکیاں، زاہدہ اور شائستہ کو اس کی ماں کہہ چھڑتیں ۔

بی ایڈ کے بعد پنچاب یونیورسٹی سے ایم-اے اکنامکس بھی کرلیا۔اس دوران 2005میں پاکستان بطور لیکچرار اٹامک انرجی کمیشن نائلہ گرلز کالج چشمہ میں پہلی ہی کوشش گزیٹڈ پوسٹ پرتقرری ہوگئی۔ وہ دن میرے ماں باپ بہن بھائیوں، اساتذہ، دوستوں اور اپنوں سے بڑھ کر حوصلے دینے والوں کے لئے بہت خوشی لیے ہوئے تھا۔

آٹھ سال ہونے کو آئے وہ لڑکی گرلز کالج چشمہ میں پڑھا رہی ہے ان گزرے سالوں میں پرنسپل میڈم رفعت گیلانی اور ساتھی اساتذہ نے اسے نہ صرف بہت محبت دی، بلکہ برابر کی عزت دی خیال رکھا۔ ہر طرح کا تعاون کیا اس نے اپنے علم کو نکھارا، نہ ۔۔۔۔۔۔بہت پیار کرتی ہے کہ دل میں اس کا احترام کرتی۔

میں 30سال گزارتے نائلہ خلا میں گھورتے ہوئے سوچتی ہے کہ انھوں نے مثبت رویوں کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ کہا کرتے تھے میرے رویے بھی اس ہمت کا باعث بنے ہیں۔
٭’’ایسے لوگ تو بس چارپائی پرپڑے رہتے ہیں‘‘لوگ بھول جاتے ہیں کہ اٹھانا، بٹھانا چلانا صرف قادر مطلق کے اختیارمیں ہے۔

٭’’ماں باپ پررٹی بھاری ہے اور بیچاری بچی کو پڑھا پڑھا کر تنگ کر رہے ہیں۔‘‘بار بار سڑک پر، بس میں چڑھتے اترتے، گھر میں، محفل میں ہرگرتے قدم کے ساتھ حسبی اللہ ونعم الوکیل نے میرا دامن تھامے رکھا۔ لوگوں کی رحم اور ترس بھری نظروں نے مجھے اللہ تعالیٰ کے اور قریب کردیا۔

نائلہ سے میڈم نائلہ اختر کا سفر طے کروانے اور مثبت سوچ دینے میں بگ برادر ڈاکٹر خالد جمیل، جناب وقاص احمد چیئرمین سیسی ٹولائف اور ڈاکٹر فخر کا بھی ہاتھ ہے۔  یونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جن کہ دیکھ کر لوگوں کو اللہ یاد آجائے وہ دنیا کا خوش نصیب ترین انسان ہے۔

میں اللہ کی مشکور ہوں کہ اس نے مجھے دنیا کے خوش نصیبوں میں سے بنایا وہ معذور افراد کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت نیت بھی بے حد ضروری ہے تاکہ وہ لوگوں کے منفی رویوں کے منفی رویوں سے مثبت پیغام لے سکیں۔
اپنی ہمت خود بندہ سکیں۔

0 comments:

Post a Comment