ہیلی کاپٹر
کمرہ
کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہرطرف کھلونے ہی کھلونے تھے۔ خوب صورت اور پیارے
پیارے' عائشہ حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے ان کو دیکھ رہی
تھی پھر اچانک اس نے جھک کر پیروں کے پاس پڑا ہوا خوبصورت ہیلی کاپٹر
اٹھالیا۔ عائشہ کو ہیلی کاپٹر بہت اچھا لگتا تھا۔ اس کی خواہش تھی اس کے
پاس بھی ایسا خوبصورت ہیلی کاپٹر ہو جس کے ساتھ وہ کھیل سکے۔
اس نے اپنی امی سے ہیلی کاپٹر لانے کیلئے کہا چونکہ ہیلی کاپٹر بہت قیمتی تھا' اس لیے امی نے اسے ٹال دیا تھا یوں عائشہ کی یہ خواہش اس کے دل ہی میں رہ گئی تھی۔ عائشہ نے پیارے ہیلی کاپٹر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے چوم کر واپس رکھ دیا۔
جس وقت اس نے ہیلی کاپٹر واپس رکھا عین اسی وقت شازیہ کمرے میں داخل ہورہی تھی۔ اس نے عائشہ کو ہیلی کاپٹر رکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
وہ تیر کی طرح اس کی طرف آئی اور پھر کمرہ چٹاخ کی آواز سے گونج اٹھا۔ شازیہ کا ہاتھ عائشہ کے گال پر پڑا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اس نے بے بسی سے شازیہ کی طرف دیکھا اور پھر سرجھکا لیا۔ ''ذلیل! تمہیں میرے ہیلی کاپٹر کو ہاتھ لگانے کی ہمت کیسے ہوئی' اگر ٹوٹ جاتا تو...؟
شازیہ کی آنکھیں آگ برسارہی تھیں' غصے کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جارہا تھا۔ عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ خاموش کھڑی رہی۔ اس کی خاموشی نے شازیہ کا غصہ مزید بڑھا دیا۔ ''بولتی کیوں نہیں... کیوں ہاتھ لگایا تھا' میرے ہیلی کاپٹر کو؟'' ''وہ جی... جی وہ... وہ'' عائشہ کے ہونٹ کانپ کر رہ گئے۔ ''وہ جی... جی وہ... کیا ہوتا ہے... کہو' کیوں ہاتھ لگایا تھا۔''
''شازیہ بی بی! مجھے یہ ہیلی کاپٹر اچھا لگتا ہے۔'' عائشہ نے جلدی سے کہا۔ اس کا سر ابھی تک جھکا ہوا تھا۔ ''اچھا لگتا ہے تو پھر خرید لو بازار سے جاکر۔''
''امی خریدنے گئی تھیں لیکن...''
بہت قیمتی تھا' اس لیے خالی ہاتھ لوٹ آئی۔یہی کہنا چاہتی ہو نا'' ''جی ... جی۔''
دفع ہوجاؤ اور خبردار! جو آئندہ میرے کمرے میں بلااجازت آنے کی کوشش کی یا کھلونوں کو چھونے کی ہمت کی۔''
''جی بہتر...'' عائشہ نے کہا اور آنکھوں میں آنسو سجائے کمرے سے نکل گئی۔
رات ماں کے پہلو میں لیٹتے وقت اس نے پوچھا: ''امی! اللہ تعالیٰ نے ہمیں غریب کیوں بنایا ہے...؟ اس نے ہمیں بھی ڈھیرے سارے پیسے کیوں نہیں دئیے...؟ اس نے ہمیں کھلونے کیوں نہیں دئیے...؟ بتاؤ نا امی...!!! اس نے وہ سب کچھ ہمیں نہیں دیا جو شازیہ بی بی کے امی ابو کے پاس ہے...؟؟؟
''میری بچی! اللہ جس کو ' جو چاہتا ہے... دیتا ہے...۔ ہم مجبور ہیں اور اس کے سامنے دم نہیں مارسکتے۔ ہمیں ہر حال میں اس کی مرضی کے آگے سرجھکانا چاہیے اور میری بچی! وہ لوگوں کو آزماتا ہے کسی کی تمام خواہشات پوری کرکے تو کسی کی چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہ کرکے...!! وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو اس کے امتحان پر پورا اترتا ہے۔ میری بچی! اللہ تعالیٰ نے ہمیں غریب بنایا ہے اس نے ہمیں شازیہ بی بی کے باپ کی طرح مال و دولت سے نہیں نوازا تو اس میں بھی کوئی مصلحت ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ انہیں مایوس نہیں کرتا۔''
ماں خاموش ہوئی تو عائشہ جلدی سے بولی: ''وہ تو ٹھیک ہے' لیکن کیا اللہ تعالیٰ مجھے شازیہ بی بی جیسا ہیلی کاپٹر نہیں دے سکتے؟ مجھے' ہیلی کاپٹر چاہیے...!!! آپ اللہ تعالیٰ سے کہیں وہ مجھے ہیلی کاپٹر دیں۔'' عائشہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
ماں نے بیٹی کا منہ چوم لیا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ماں' بیٹی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا: ''کون ہے؟'' ''زبیدہ... دروازہ کھولو...''
شازیہ کی امی کی آواز پہچان کر عائشہ تیزی سے اٹھی اور دروازہ کھول دیا اس کے سامنے شازیہ کی امی کھڑی تھیں۔
''بیگم صاحبہ...! آپ اور اس وقت یہاں...'' عائشہ کے لہجے میں حیرت تھی۔ عائشہ نے دیکھا' عائشہ کی امی کے دونوں ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کوئی چیز چھپا رکھی ہے۔ وہ مسکرائیں اور بولیں: ''حیران ہونے کی ضرورت نہیں' میں تمہارے لیے تحفہ لائی ہوں...''
''تحفہ اور میرے لیے!!'' عائشہ کی حیرت دیکھنے والی تھی۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی... شازیہ بی بی کی امی جو شہر کے مشہور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اس کیلئے تحفہ بھی لاسکتی ہیں۔
''شازیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ تمہیں ہیلی کاپٹر بہت پسند ہے تو میں نے فوراً بازار سے منگوالیا یہ دیکھو...''
شازیہ کی امی نے کمر کے پیچھے سے ہاتھ نکالے تو عائشہ مارے خوشی کے اچھل ہی تو پڑی۔ انہوں نے ہاتھ میں خوبصورت ہیلی کاپٹر پکڑا ہوا تھا۔ عائشہ کو یوں محسوس ہوا جیسے ہیلی کاپٹر اس سے کہہ رہا ہو: ''لو... میں تمہارے پاس آگیا ہوں' تمہاری خواہش تھی نا کہ میرے ساتھ کھیلو... میں تو اسی لیے آیا ہوں۔''
عائشہ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔ اس نے لپک کر شازیہ کی امی کے ہاتھ سے ہیلی کاپٹر لے لیا۔ اس کی امی ارے... ارے... کرتی رہ گئی اور وہ ہیلی کاپٹر تھامے تیزی سے اندر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔
اس نے اپنی امی سے ہیلی کاپٹر لانے کیلئے کہا چونکہ ہیلی کاپٹر بہت قیمتی تھا' اس لیے امی نے اسے ٹال دیا تھا یوں عائشہ کی یہ خواہش اس کے دل ہی میں رہ گئی تھی۔ عائشہ نے پیارے ہیلی کاپٹر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے چوم کر واپس رکھ دیا۔
جس وقت اس نے ہیلی کاپٹر واپس رکھا عین اسی وقت شازیہ کمرے میں داخل ہورہی تھی۔ اس نے عائشہ کو ہیلی کاپٹر رکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
وہ تیر کی طرح اس کی طرف آئی اور پھر کمرہ چٹاخ کی آواز سے گونج اٹھا۔ شازیہ کا ہاتھ عائشہ کے گال پر پڑا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اس نے بے بسی سے شازیہ کی طرف دیکھا اور پھر سرجھکا لیا۔ ''ذلیل! تمہیں میرے ہیلی کاپٹر کو ہاتھ لگانے کی ہمت کیسے ہوئی' اگر ٹوٹ جاتا تو...؟
شازیہ کی آنکھیں آگ برسارہی تھیں' غصے کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جارہا تھا۔ عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ خاموش کھڑی رہی۔ اس کی خاموشی نے شازیہ کا غصہ مزید بڑھا دیا۔ ''بولتی کیوں نہیں... کیوں ہاتھ لگایا تھا' میرے ہیلی کاپٹر کو؟'' ''وہ جی... جی وہ... وہ'' عائشہ کے ہونٹ کانپ کر رہ گئے۔ ''وہ جی... جی وہ... کیا ہوتا ہے... کہو' کیوں ہاتھ لگایا تھا۔''
''شازیہ بی بی! مجھے یہ ہیلی کاپٹر اچھا لگتا ہے۔'' عائشہ نے جلدی سے کہا۔ اس کا سر ابھی تک جھکا ہوا تھا۔ ''اچھا لگتا ہے تو پھر خرید لو بازار سے جاکر۔''
''امی خریدنے گئی تھیں لیکن...''
بہت قیمتی تھا' اس لیے خالی ہاتھ لوٹ آئی۔یہی کہنا چاہتی ہو نا'' ''جی ... جی۔''
دفع ہوجاؤ اور خبردار! جو آئندہ میرے کمرے میں بلااجازت آنے کی کوشش کی یا کھلونوں کو چھونے کی ہمت کی۔''
''جی بہتر...'' عائشہ نے کہا اور آنکھوں میں آنسو سجائے کمرے سے نکل گئی۔
رات ماں کے پہلو میں لیٹتے وقت اس نے پوچھا: ''امی! اللہ تعالیٰ نے ہمیں غریب کیوں بنایا ہے...؟ اس نے ہمیں بھی ڈھیرے سارے پیسے کیوں نہیں دئیے...؟ اس نے ہمیں کھلونے کیوں نہیں دئیے...؟ بتاؤ نا امی...!!! اس نے وہ سب کچھ ہمیں نہیں دیا جو شازیہ بی بی کے امی ابو کے پاس ہے...؟؟؟
''میری بچی! اللہ جس کو ' جو چاہتا ہے... دیتا ہے...۔ ہم مجبور ہیں اور اس کے سامنے دم نہیں مارسکتے۔ ہمیں ہر حال میں اس کی مرضی کے آگے سرجھکانا چاہیے اور میری بچی! وہ لوگوں کو آزماتا ہے کسی کی تمام خواہشات پوری کرکے تو کسی کی چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہ کرکے...!! وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو اس کے امتحان پر پورا اترتا ہے۔ میری بچی! اللہ تعالیٰ نے ہمیں غریب بنایا ہے اس نے ہمیں شازیہ بی بی کے باپ کی طرح مال و دولت سے نہیں نوازا تو اس میں بھی کوئی مصلحت ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ انہیں مایوس نہیں کرتا۔''
ماں خاموش ہوئی تو عائشہ جلدی سے بولی: ''وہ تو ٹھیک ہے' لیکن کیا اللہ تعالیٰ مجھے شازیہ بی بی جیسا ہیلی کاپٹر نہیں دے سکتے؟ مجھے' ہیلی کاپٹر چاہیے...!!! آپ اللہ تعالیٰ سے کہیں وہ مجھے ہیلی کاپٹر دیں۔'' عائشہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
ماں نے بیٹی کا منہ چوم لیا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ماں' بیٹی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا: ''کون ہے؟'' ''زبیدہ... دروازہ کھولو...''
شازیہ کی امی کی آواز پہچان کر عائشہ تیزی سے اٹھی اور دروازہ کھول دیا اس کے سامنے شازیہ کی امی کھڑی تھیں۔
''بیگم صاحبہ...! آپ اور اس وقت یہاں...'' عائشہ کے لہجے میں حیرت تھی۔ عائشہ نے دیکھا' عائشہ کی امی کے دونوں ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کوئی چیز چھپا رکھی ہے۔ وہ مسکرائیں اور بولیں: ''حیران ہونے کی ضرورت نہیں' میں تمہارے لیے تحفہ لائی ہوں...''
''تحفہ اور میرے لیے!!'' عائشہ کی حیرت دیکھنے والی تھی۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی... شازیہ بی بی کی امی جو شہر کے مشہور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اس کیلئے تحفہ بھی لاسکتی ہیں۔
''شازیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ تمہیں ہیلی کاپٹر بہت پسند ہے تو میں نے فوراً بازار سے منگوالیا یہ دیکھو...''
شازیہ کی امی نے کمر کے پیچھے سے ہاتھ نکالے تو عائشہ مارے خوشی کے اچھل ہی تو پڑی۔ انہوں نے ہاتھ میں خوبصورت ہیلی کاپٹر پکڑا ہوا تھا۔ عائشہ کو یوں محسوس ہوا جیسے ہیلی کاپٹر اس سے کہہ رہا ہو: ''لو... میں تمہارے پاس آگیا ہوں' تمہاری خواہش تھی نا کہ میرے ساتھ کھیلو... میں تو اسی لیے آیا ہوں۔''
عائشہ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔ اس نے لپک کر شازیہ کی امی کے ہاتھ سے ہیلی کاپٹر لے لیا۔ اس کی امی ارے... ارے... کرتی رہ گئی اور وہ ہیلی کاپٹر تھامے تیزی سے اندر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔
0 comments:
Post a Comment