دنیا بھر میں موبائل چوری پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس
سلسلے میں امریکی شہروں نیویارک اور سان فرانسسکو میں نئے اقدامات آزمائے
جائیں گے۔
حکام چوری کو روکنے کے لیے نئے اقدامات کو آئی فون فائیو اور سام سنگ گلیکسی ایس فور پر ٹیسٹ کریں گے۔اس ٹیسٹ میں یہ بات معلوم کی جائے گی کہ نئے اقدامات موبائل چوروں کے حربوں کے خلاف کس حد تک مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کے بڑے شہروں کے حکام نے موبائل تیار کرنے والے کمپنیوں پر موبائل چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔
لندن کے میئر بورس جانسن نے موبائل کمپنیوں کو لکھا کہ وہ موبائل چوری کے’مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔‘
بورس جانسن نے ایپل، سام سنگ، گوگل اور موبائل بنانے والے دوسرے کمپنیوں کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ’اگر ہم موبائل چوری کو روکنا چاہتے ہیں اور ایسے جرائم پر قابو پانے چاہتے ہیں جو آپ کے صارفین اور ہمارے شہر میں رہنے اور آنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کمپنیوں کو مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ آپ کی کمپنی کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔‘
امریکی حکام نے بھی گذشتہ ماہ موبائل کمپنیوں کے ساتھ اجلاس میں اس قسم کا موقف اختیار کیا تھا۔
انھوں نے کمپنیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ موبائل میں ’کِل سوئچ‘ نصب کریں جس کے ذریعے موبائل چوری ہونے کے بعد بے کار کر دیا جاتا ہے اور چور کے کسی کام کا نہیں رہتا۔
امریکہ کے وفاقی تجارتی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی ہر تیسری چوری موبائل کی ہوتی ہے۔
نیویارک میں 40 فیصد چوریاں موبائل کی ہوتی ہیں۔ موبائل چوری اس قدر عام ہے کہ پولیس نے اسے ’ایپل پِکنگ یا ایپل اٹھانے‘ کا نام دیا ہے۔
اسی طرح لندن میں بھی موبائل فونز کی چوری میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ لندن کے میئر کے دفتر کے مطابق چوری کے 75 فیصد واقعات موبائل چوری کے ہوتے ہیں اور دس ہزار موبائل سیٹ ماہانہ چوری ہوتے ہیں۔
ادھر موبائل کمپنیوں نے موبائل چوری پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی پیشکش کی ہے۔
ایپل کا ایکٹیویشن لاک نئے آئی فون اور آئی پیڈ سافٹ ویئر کا حصہ ہوگا۔
موبائل چوری کرنے کے فوراً بعد چور موبائل کو ڈی اکٹیویٹ کر دیتے ہیں تاکہ ان کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ایکٹیویشن لاک کا مقصد موبائل کو دوبارہ ایکٹیویٹ کرنا مشکل بنانا ہے کیونکہ اس کے لیے موبائل کو رجسٹر کرتے وقت دی گئی اصلی لاگ اِن کی تفصیلات کی ضرورت ہوگی۔
سام سنگ اور دوسری موبائل کمپنیاں لو جیک کا نظام استعمال کریں گی۔
تاہم نیویارک اور سان فرانسسکو کے حکام نے کہا کہ ’ہمیں ان کمپنیوں کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’آج ہم ان کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کی جانچ پڑتال کریں گے اور دیکھیں گے کہ یہ چوروں کی طرف سے استعمال ہونے والے حربوں کے خلاف کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔‘
حکام چوری کو روکنے کے لیے نئے اقدامات کو آئی فون فائیو اور سام سنگ گلیکسی ایس فور پر ٹیسٹ کریں گے۔اس ٹیسٹ میں یہ بات معلوم کی جائے گی کہ نئے اقدامات موبائل چوروں کے حربوں کے خلاف کس حد تک مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کے بڑے شہروں کے حکام نے موبائل تیار کرنے والے کمپنیوں پر موبائل چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔
لندن کے میئر بورس جانسن نے موبائل کمپنیوں کو لکھا کہ وہ موبائل چوری کے’مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔‘
بورس جانسن نے ایپل، سام سنگ، گوگل اور موبائل بنانے والے دوسرے کمپنیوں کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ’اگر ہم موبائل چوری کو روکنا چاہتے ہیں اور ایسے جرائم پر قابو پانے چاہتے ہیں جو آپ کے صارفین اور ہمارے شہر میں رہنے اور آنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کمپنیوں کو مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ آپ کی کمپنی کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔‘
امریکی حکام نے بھی گذشتہ ماہ موبائل کمپنیوں کے ساتھ اجلاس میں اس قسم کا موقف اختیار کیا تھا۔
انھوں نے کمپنیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ موبائل میں ’کِل سوئچ‘ نصب کریں جس کے ذریعے موبائل چوری ہونے کے بعد بے کار کر دیا جاتا ہے اور چور کے کسی کام کا نہیں رہتا۔
امریکہ کے وفاقی تجارتی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی ہر تیسری چوری موبائل کی ہوتی ہے۔
نیویارک میں 40 فیصد چوریاں موبائل کی ہوتی ہیں۔ موبائل چوری اس قدر عام ہے کہ پولیس نے اسے ’ایپل پِکنگ یا ایپل اٹھانے‘ کا نام دیا ہے۔
اسی طرح لندن میں بھی موبائل فونز کی چوری میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ لندن کے میئر کے دفتر کے مطابق چوری کے 75 فیصد واقعات موبائل چوری کے ہوتے ہیں اور دس ہزار موبائل سیٹ ماہانہ چوری ہوتے ہیں۔
ادھر موبائل کمپنیوں نے موبائل چوری پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی پیشکش کی ہے۔
ایپل کا ایکٹیویشن لاک نئے آئی فون اور آئی پیڈ سافٹ ویئر کا حصہ ہوگا۔
موبائل چوری کرنے کے فوراً بعد چور موبائل کو ڈی اکٹیویٹ کر دیتے ہیں تاکہ ان کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ایکٹیویشن لاک کا مقصد موبائل کو دوبارہ ایکٹیویٹ کرنا مشکل بنانا ہے کیونکہ اس کے لیے موبائل کو رجسٹر کرتے وقت دی گئی اصلی لاگ اِن کی تفصیلات کی ضرورت ہوگی۔
سام سنگ اور دوسری موبائل کمپنیاں لو جیک کا نظام استعمال کریں گی۔
تاہم نیویارک اور سان فرانسسکو کے حکام نے کہا کہ ’ہمیں ان کمپنیوں کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’آج ہم ان کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کی جانچ پڑتال کریں گے اور دیکھیں گے کہ یہ چوروں کی طرف سے استعمال ہونے والے حربوں کے خلاف کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔‘
0 comments:
Post a Comment