Monday 22 July 2013

Seven Medical Tips For Saving Diseases

Posted by Unknown on 04:51 with No comments
بیماریوں سے بچانے والے 7طبّی ٹوٹکے
ہمیں محسوس نہیں ہوتا، لیکن عام زندگی میں بعض کام ہمارے جسم اور صحت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی سات سرگرمیاں پیش ہیں جنہیں انجام دینے یا نہ دینے سے ہم کئی خوفناک بیماریوں مثلاً ذیابیطس، امراض قلب، موٹاپے وغیرہ سے بچ سکتے ہیں۔
1۔ جب ہم ناشتہ نہ کریں…تو کیا ہوتا ہے؟
انسان جب طویل آرام کے بعد صبح بیدار ہو، تو اُسے کھانا کھائے دس بارہ گھنٹے بیت چکے ہوتے ہیں۔ گویا تب بدن کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص بات یہ کہ اس وقت خون میں گلوکوز کی مقدار بھی کم ہوچکی ہوتی ہے۔
چناں چہ انسان ناشتہ کیے بغیر کام پہ لگ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی سے محروم ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے دماغ کو موثر طور پر کام کرنے کے لیے شکر خون (بلڈشوگر) کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ناشتہ نہ کرنے والے مرد و زن دوران کار سر درد، اعصابی تنائو، متلی، شکم درد محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات ذہنی قوت بھی کم ہو جاتی ہے۔ ماہرین تحقیق سے دریافت کر چکے کہ اسکول جانے والے جو بچے ناشتہ کریں ان کی یادداشت تیز ہوتی ہے۔

نیز وہ ناشتہ نہ کرنے والے بچوں سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔
ممتاز امریکی معالج، ڈاکٹر سوما ڈریلی کہتی ہے ’’ناشتہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ سارا دن انسان کی بھوک کنٹرول میں رکھتا ہے‘‘۔ ایک اور بات یہ ہے کہ جو مرد و زن ناشتہ نہ کریں، وہ پھر دوپہر یا رات کو زائد کھانا کھا کر حراروں کی کمی پوری کرتے ہیں۔ نیز اس دوران عموماً وہ سیچوریٹڈ چکنائی والی اشیا کھاتے ہیں… وہ چکنائی جو ہمارے قلب کی شریانوں میں جم جاتی ہے۔
ناشتہ نہ کرنے والے اس عادتِ بد میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ کھانوں کے درمیان الم غلم (Junk) غذائیں کھاتے پھریں۔ امریکا میں بذریعہ تحقیق معالجوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ جو فربہ خواتین زیادہ کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین سے بھرپور بھاری ناشتہ کریں، ڈائٹنگ کے دوران ان کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ ناشتہ نہ کرنے والی موٹی خواتین اس کامیابی سے محروم رہتی ہیں۔ لہٰذا مناسب ناشتہ کر کے وزن کم کیجیے، یوں آپ کے خون میں شکر کی سطح بھی معمول پر رہے گی۔
نکتے کی بات
75 فیصد سے زیادہ جو مرد و زن ناشتہ کریں، وہ اپنا وزن کم کر لیتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا اگر صبح آپ ناشتے سے لطف اندوز ہوں، تو آپ انسولین مزاحمت (Resistance) سے بھی بچ سکیں گے۔ اسی خلل کے باعث انسان ذیابیطس قسم دو کا نشانہ بنتا ہے۔
2۔ جب ہم چاکلیٹ کھائیں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
بازار میں دستیاب تمام میٹھی اشیا میں چینی موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے جب ہم ٹافی، گولی، آئس کریم، کیک وغیرہ کھائیں، جن میں کہ چینی بہت ہوتی ہے، تو ہمارے خون میں شکر کی سطح (کبھی کبھی خطرناک حد تک) بڑھ جاتی ہے۔ تاہم چاکلیٹ کے ذریعے یہ اثر جنم نہیں لیتا۔
وجہ یہ ہے کہ چاکلیٹ میں چکنائی (Fat) بھی خاصی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ چاکلیٹ کے ہضم ہونے کا عمل سست کر ڈالتی ہے۔ چناں چہ چاکلیٹ کھانے سے ہمارے خون میں شکر بڑھتی تو ہے، لیکن اتنی زیادہ مقدار میں نہیں جو سادہ کاربوہائیڈریٹ مثلاً ٹافی، گولی، سفید ڈبل روٹی، پاستا یا آلو کھانے سے جنم لیتی ہے۔
چاکلیٹ دیگر منفی عوامل بھی رکھتا ہے۔ مثلاً دودھ والے (مِلک چاکلیٹ) میں قلبی شریانیں بند کرنے والی اچھی خاصی سیچوریٹڈ چکنائی موجود ہوتی ہے۔ اور یہی مِلک چاکلیٹ بازار میں دستیاب ہے۔
یہ بھی درست کہ چاکلیٹ سٹیرک (Searic) تیزاب نامی چکنائی بھی رکھتا ہے جو ہمارے کولیسٹرول میں اضافہ نہیں کرتا۔ لیکن بہت زیادہ چکنائی کھانے کا مطلب ہے بہت زیادہ حرارے کھانا۔ لہٰذا اگر آپ نے باقاعدگی سے مِلک چاکلیٹ کھایا تو فربہ رہنے کے لیے تیار رہیے۔ البتہ گہری رنگت والا (Dark) چاکلیٹ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ وہ بلند فشار خون (بلڈ پریشر) اور کرنے والے ضد تکسیدی مادے رکھتا ہے۔
نکتے کی بات
چاکلیٹ یقینا بچوں بڑوں کی من پسند غذائی شے ہے، لیکن اسے کھانا عادت نہ بنائیے۔ بس ہفتے میں ایک دو بار کھائیے۔ دوسری صورت میں وزن بڑھنا آپ کا مقدر بن جائے گا۔
3۔ جب ہم سیب کھا لیں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
رس بھرے سیب کی ہر قاش اہم غذائیت (Nutrient) اور دیگر غذائی مرکبات رکھتی ہے۔ یہ رسیلاپھل ہمارے نظام استحالہ (Metabolism) کو تقویت پہنچاتا، بھوک دباتا اور قلب کی نشوونما کرتا ہے۔
سیب کے غذائی اجزا میں ریشہ (فائبر) سب سے اہم ہے، خصوصاً حل پذیر ریشہ۔ یاد رہے، ہر قسم کا خلوی مادہ ہماری صحت کے لیے مفید ہے، لیکن حل پذیر ریشہ ایک منفرد خاصیت رکھتا ہے، یہ کہ وہ خون میں شکر کی سطح کنٹرول کرتا ہے۔
جیسے ہی حل پذیر ریشہ ہماری آنتوں میں پہنچے، وہ ہر قسم کے تیزاب و جراثیم متحرک کر دیتا ہے۔ اسی سرگرمی کے باعث نظام انہضام سست پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیب میں موجود شکر ہمارے بدن میں آہستہ آہستہ جذب ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ بے شک دو سیب کھا جائیں، ہمارے خون میں شکر کی سطح معمول پر رہتی ہے۔
سیب ایک ضد تکسیدی (Antioxidant) مادہ، کوئرسٹین (Quercetin) بھی رکھتا ہے۔ یہ بڑا صحت بخش مادہ ہے (جو سبز چائے اور پیاز میں بھی ملتا ہے۔) یہ ہمیں دمے، امراض قلب اور شاید بعض اقسام کے سرطان سے محفوظ رکھتا ہے۔
نکتے کی بات
تحقیق و تجربات کے ماہرین کو علم ہوا ہے کہ سیب کھانے والے ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ نیز یہ پھل انسان کو فربہ ہونے سے بھی بچاتا ہے۔
۴۔اگر میں بیٹھے ہوئے دن گزار دوں۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
کئی لوگ دن کا بیشتر حصہ بیٹھے ہوئے گزارتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں جب گلوکوز بھی ہمارے خون میں آرام کرنے لگے، تو ہمارا جسم کئی خرابیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔
جب ہم چلیں پھریں یا کوئی کام کریں، تو ہمارے عضلات گلوکوز جذب کر کے توانائی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جس دن ہم زیادہ بیٹھے رہیں اور حرکت نہ کریں، تو گلوکوز زیر استعمال نہیں آتی۔ اور جب انسان بیٹھے رہنے کو معمول بنا لے تو دو اہم جسمانی مسئلے جنم لیتے ہیں۔
اول یہ کہ ہمارا جسم بعض غیر استعمال شدہ گلوکوز کو چربی (یا چکنائی) میں بدل دیتا ہے۔ دوم گلوکوز خون میں طویل عرصہ آرام دہ حالت میں رہے، تو ہمارے بدن میں خاص قسم کے مرکب مادے ’’اے جی ایز‘‘ (AGEs) کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ مادہ ہمارے اعصاب اور خون کے خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے خون میں شکر کی سطح مسلسل بلند رہے، تو گردوں کی بیماری جنم لیتی ہے۔ نسیں خراب ہوتی اور اندھا پن چمٹ جاتا ہے۔ ذیابیطس تو اس کی خاص مصنوعہ گنی جاتی ہے۔
چناں چہ طویل عرصہ بیٹھ کر نہ گزاریے، حرکت میں رہیے اور کام کیجیے۔ ورنہ آپ درج بالا جسمانی خرابیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے، ورزش چربی گھلانے والی سکّہ بند سرگرمی ہے۔ اور تحقیق بتاتی ہے کہ جسمانی سرگرمی سے اے جی ایز کی سطح بھی معمول پر آتی ہے۔ لہٰذامعمولات زندگی میں ورزش کو ضرور داخل رکھیے۔
نکتے کی بات
دن کا بیشتر عرصہ بیٹھے رہنے سے خون میں شکر بھی بے حرکت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ حالت پھر کئی جسمانی خرابیاں پیدا کرتی ہے۔
5۔ جب میں غصے میں سارا دن بسر کروں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
انسان گاہے بہ گاہے غصے میں آئے تو اس میں کوئی ہرج نہیں… یہ ایک قدرتی جذبہ ہے جو کبھی نہ کبھی ہر کسی کو آ دبوچتا ہے۔ لیکن مسلسل غصے میں رہنا دوسری بات ہے… یوں انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔
غصہ دو دھاری تلوار ہے۔ کیونکہ جذباتی طور پر یہ انسان کا موڈ تباہ کرتا اور دوسروں کو اس سے دور کرتا ہے۔ جبکہ جسمانی لحاظ سے غصہ ور انسان موٹاپے اور ذیابیطس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
غصہ دراصل ایک قسم کا ’’جذباتی دبائو‘‘ (Emotional Stress) ہے۔ اس کے جنم لینے سے ہمارے بدن میں ایڈرنیلین اور دبائو سے وابستہ دیگر ہارمون پیدا ہوتے ہیں۔ ان دبائو والے ہارمونوں کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ ہمارے خون میں شکر کی سطح بڑھاتے ہیں۔ نیز جذباتی دبائو ہم میں بری عادات مثلاً الم غلم چیزیں کھانا بھی جنم دیتا ہے۔
انسان دن بھر جلتا کڑھتا اور پیچ و تاب کھاتا رہے، تو یہ کیفیت اس کے دل پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ امریکی ٹیل یونیورسٹی کی تازہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ غصہ پالنے کے شوقین ہیں، ان میں ایک کیمیائی مادہ، اینڈوتھیلین (Endothelin) بکثرت ملتا ہے۔
اینڈوتھیلین کی زیادتی ہی سے دل کی شریانوں میں چربی، کولیسٹرول اور دیگر غذائی مواد جمع ہو کر تھکے بناتا ہے۔ چناں چہ اس کیمیائی مادے کے باعث حملہ قلب ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔
جدید تحقیق نے ایک اور خطرناک انکشاف بھی کیا ہے۔ یہ کہ کوئی انسان مسلسل شدید غصے میں رہے، تو اس میں دھڑکن قلب کی بے قاعدگی (Arrhythmia) کا خلل جنم لیتا ہے۔ یہ خلل بے قابو ہو جائے تو پھر آپ کا دل دھک دھک کرنا چھوڑ سکتا ہے… ہمیشہ کے لیے!
نکتے کی بات
یاد رکھیے، دن بھر غصے میں رہنا زہر ہے۔ لہٰذا اگر آپ اپنا خون ابلتا پائیں، تو جلد اُسے سرد کرنے کی راہ ڈھونڈیے۔ مثلاً اپنا غم و غصہ ڈائری میں لکھ ڈالیے۔ کسی دوست یا ہم راز کو قصّہِ درد سنائیے۔یا پھر باہر جائیے اور بلند آواز میں چیخیے۔۔۔ غرض ایسا ہر قدم اٹھائیے جو آپ کا غصہ دور کر سکے۔
6۔ میں سارا دن خوش رہوں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟
جب انسان خوش ہو، اطمینان و سکون محسوس کرے تو اس میں قوت ارتکاز بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر اپنے آپ پہ زیادہ توجہ دیتا ہے۔ چونکہ انسان اپنی دنیا میں امن و امان سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کے بدن میں ذہنی دبائو سے وابستہ ہارمون جنم نہیں لیتے۔ یوں ان کی عدم موجودگی میں خون کی شکر قابو میں رہتی ہے، بلند فشار خون پیدا نہیں ہوتا اور دل کی دھڑکن معمول پر رہتی ہے۔
جدید تحقیق بتاتی ہے کہ خوش باش رہنے والے مرد و زن چھوت کی بیماریوں اور دیگر امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی کارنیج میلن یونیورسٹی میں محققوں نے دس مرد اور خواتین کو دانستہ مختلف جراثیم اور وائرس کا شکار بنایا۔ بعد ازاں اُن مرد و زن کے جسمانی معائینے سے انکشاف ہوا کہ جو خوش باش اور اچھے موڈ میں تھے، ان کے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے والے خاص پروٹین ’’سائٹوکائنز‘‘ زیادہ مقدار میں پیدا ہوئے۔ یہ پروٹین ہمارا نظام مامون پیدا کرتا ہے۔
دیگر تجربات سے بھی واضح ہوا کہ جذبات ہمارے رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً ان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ مثبت طرز فکر رکھیں اور امید پرست رہیں، وہ صحت بخش کھانے کھاتے اور ورزش کرتے ہیں۔ ان کے خون میں شکر کی سطح بھی کم ہوتی ہے۔ غرض وہ ناامیدی اور منفی طرز فکر کا شکار لوگوں کی نسبت بہتر زندگی گزارتے ہیں۔
7۔ اگر میں رات کو پانچ گھنٹے نیند لوں۔۔۔ تو کیا ہوتا ہے۔
انسان جب بھی معمول سے کم نیند لے تو اس کا جسمانی نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ نیند کی کمی سے ہمارے بدن میں بھوک کنٹرول کرنے والا ہارمون، لیپٹن کم جنم لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مرد و زن کم سوئیں، وہ عموماً زیادہ کھانا کھانے لگتے اور فربہ ہو جاتے ہیں۔
نیند کی عدم موجودگی سے بدن میں دبائو Stress پیدا کرنے والے ہارمونوں کی افزائش بھی بڑھتی ہے۔ اسی باعث ہمارا بدن خون میں زاہد گلوکوز پھینکنے لگتا ہے (تاکہ دبائو کم ہو سکے)۔ لہٰذا بہت کم نیند سے جسم میں انسولین کا نظام بھی گڑبڑا جاتا ہے۔
دل تھام کے رکھیے، ابھی تو آغاز ہے۔ محققوں نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کم سونا معمول بنا لے، تو ہمارا مدافعتی (Immune) نظام ایسے مخصوص کیمیائی مادے بنانا چھوڑ دیتا ہے جو جراثیم مارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے سال ایک تحقیق سے دریافت ہوا، جو خواتین و حضرات سات گھنٹے سے کم نیند لیں، وہ دوسروں کی نسبت عام بیماریوں مثلاً بخار، کھانسی، نزلہ وغیرہ میں زیادہ گرفتار ہوتے ہیں۔
نیند کی کمی کے دیگر نقصانات بھی ہیں۔ مثلاً جب الارم انسان کو جگائے، تو بے دلی سے دن کا آغاز کرتا ہے۔ پھر جوں جوں وقت گزرے، انسان پہ سستی اور غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ وہ پھر کوئی کام دھیان سے نہیں کرتا۔ دوسری طرف جو مرد و زن پوری نیند لیں، رات کو بھرپور آرام کریں وہ نئی معلومات تیزی سے اخذ کرتے اور بہترین طور پر کام انجام دیتے ہیں۔
نکتے کی بات
یہ درست ہے کہ کچھ لوگ تھوڑی سی نیند لے کر بھی چوق چوبند ہو جاتے ہیں، مگر بیشتر لوگوں کو سات آٹھ گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

0 comments:

Post a Comment