صبر کرنے والے
صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرادئیے جاتے ہیں
کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی تعفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی
“شکر“ کا درجہ اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو
گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادئ اذیت سے
گذرجاتے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام
پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا
ہے،کیونکہ یہی مقام و وصال حق کا مقام ہے۔ تمام و اصلین حق صبر کی وادیوں
سے بہ تسلیم و رضا گزرکر سجدہ شکر تک پہنچے۔یہی انسان کی رفعت ہے۔یہی شانَ
عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو،دل یا دو سے زخمی ہو اور
درنیاز سجدہ میں ہو کہ“اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تو ہے کہ
تو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا تیری طرف سے آنے
والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف
اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر
اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعث تسکین روح و دل بنایا۔“
واصف علی واصف کی کتاب “دل،دریا، سمندر سے اقتباس۔
0 comments:
Post a Comment