Monday 22 July 2013

Unique Relationship

Posted by Unknown on 04:00 with No comments
انوکھا رشتہ
0
anokha rishta

انوکھا رشتہ
جیمز ایک ماہر کار مکینک تھا اور ریس کا شیدائی بھی…. ڈیانا اُس کی کالج کی کلاس فیلو تھی۔ پڑھائی کے دوران ہی دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مگر پھر جیمز کو لگا کہ اگر وہ شادی کرے گا تو اس کے کار ریس کے شوق میں رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ ڈیانا دلہن بنی اُس کا انتظار کرتی رہی اور وہ شادی کرنے نہیں پہنچا۔

یہ کیلیفورنیا کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ بات جلد ہی پھیل گئی اور لوگ جیمز کو طعنے دینے لگے۔ جیمز کو لگا اگر وہ کچھ عرصہ اور وہاں رہا تو لوگوں کے طعنے اُسے پاگل کر دیں گے۔ قصبے کے قریبی ساحل سے اُن دنوں ایک تجارتی جہاز افریقہ جا رہا تھا۔ جیمز نے کبھی کشتی بھی نہیں چلائی تھی۔ مگر اُس نے اس جہاز پر ملازمت کے لیے درخواست دے دی۔

خوش قسمتی سے اُسے جہاز پر عرشے کی تزئین و آرائش اور صفائی کا نگران بنا دیا گیا اور یوں جیمز کے لیے اپنے قصبے سے فرار کی راہ آسان ہو گئی۔ جیمز کی قسمت کہ چند دن بعد ہی جہاز میں کچھ خرابی ہو گئی اور اُسے تنزانیہ کے ساحل پر لنگر انداز ہونا پڑا۔ جہاز کے کچھ مسافروں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر قریبی جنگل میں شکار کا منصوبہ بنایا۔جیمز بھی اُن کے ساتھ چل دیا۔ مگر بعد میں جیمز بہت پچھتایا کیونکہ جو کچھ اس کی آنکھوں نے دیکھا اس کی سفاکی نے اُسے رات بھر سونے نہیں دیا تھا۔

اُن شکاریوں نے ایک مادہ چمپینزی کو شکار کیا اور اُسے ذبح کر ڈالا تھا۔ جب کہ اُس کا بچہ ابھی صرف ایک دن کا تھا۔ جیمز رات بھر بے چین رہا، صبح وہ اٹھا اور اکیلا جنگل کی طرف چل دیا اور اُس چمپینزی کے بچے کو ڈھونڈنے لگا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد اُسے جھاڑیوں میں چھپا بھورے بالوں، گلابی چہرے اور حیرت، خوف اور معصومیت بھری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھتا چمپینزی کا بچہ نظر آ گیا۔ جیمز نے اسے گود میں اٹھا لیا اور جہاز پر واپس آ گیا۔ مگر جہاز میں کوئی شدید خرابی پیدا ہو چکی تھی اور وہ سفر کرنے کے قابل نہیں تھا۔

اب جیمز کے اوپر ننھے چمپینزی کی بھی ذمہ داری تھی۔ جیمز دن کے وقت قصبے اور جنگل میں گھوم کر پھل ، انڈے اور کھانا حاصل کرتا اور رات کو جہاز پر آکر سو جاتا۔ تقریباً ایک ماہ یہی سلسلہ جاری رہا۔

جیمز اس دوران کوشش کرتا رہا کہ اس کے واپس کیلیفورنیا جانے کا انتظام ہو جائے۔ آخر کار قصبے کے ایک آدمی کو اُس پر رحم آ گیا وہ اُسے جرمن مشنریوں کے پاس لے گیا اور اُس کو گھر پہنچانے میں اُن سے مدد کی درخواست کی۔ جیمز کی قسمت اچھی تھی۔

چند دن میں اُس کی ٹکٹ کا انتظام ہو گیا۔ جیمز جب جہاز سے اُترا تو اُس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا صرف اس کی بغل میں ایک چمپینزی کا بچہ تھا۔ جیمز کی ماں ایئر پورٹ پر اُسے لینے آئی تھی۔ مگر بیٹے کی حالت دیکھ کر وہ روپڑی۔ جیمز بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ڈیانا بھی وہاں موجود تھی مگر اس نے اس سے کچھ نہ کہا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ خود اسے بتائے کہ وہ اسے اس طرح چھوڑ کر کیوں چلا گیا تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں مگر دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہا۔

جیمز کی ماں کو بھی چمپینزی کے بچے سے انسیت محسوس ہوئی اور اُس نے اسے گود میں لیا۔ وہ بھی آرام سے جیمز کی ماں کی گود میں چلا گیا۔ انھوں نے اس کا نام ’’مونی‘‘ رکھا۔ اب وہ دونوں زیادہ تر وقت مونی کے ساتھ گزارتے۔ ڈیانا کی ماں جیمز کی ماں کی بہت اچھی دوست تھی۔ وہ بھی مونی میں دلچسپی لینے لگی۔ ڈیانا بھی اکثر مونی کو دیکھنے آ جاتی اور یوں ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جُڑنے لگا۔ جیمز نے ڈیانا سے اپنے رویے کی معذرت کی اور پھر سے اس سے شادی کی درخواست کی گو کہ اس میں اس کو چار سال لگ گئے۔

ڈیانا نے اُس کی درخواست ایک بار پھر قبول کر لی کیونکہ وہ جیمز سے ابھی بھی شدید محبت کرتی تھی۔ شادی پر ان کا مہمان خصوصی تھا مونی جو اب ۴ سال کا ہو چکا تھا۔ کالے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا اور بے حد خوش تھا۔ وہ ایک میز سے دوسری میز پر چھلانگیں مارتا رہا اور تمام مہمانوں کو محظوظ کرتا رہا۔ ان ۴  برسوں کے دوران قصبے کے تمام لوگ مونی سے محبت کرنے لگے تھے۔ وہ بے حد ذہین تھا اور اپنی شرارتوں سے سب کا دل بہلاتا تھا۔ وہ اپنے پنجے استعمال کرنے میں بے حد محتاط رہتا تھا کہ کسی کو بھی اُس سے کوئی ایذا نہ پہنچے۔

جیمز کو بچے بہت پسند تھے اور اس کی خواہش تھی کہ ان کے ڈھیر سارے بچے ہوں۔ شادی کے چند ماہ بعد جب وہ اور ڈیانا اس سلسلے میں ڈاکٹر کو دکھانے گئے تو اُن پر انکشاف ہوا کہ ڈیانا کو بیضہ دانی کا کینسر ہے اور وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ یہ خبر دونوں پر بجلی بن کر گری۔ کیونکہ وہ دونوں چاہتے تھے کہ ان کا گھر بچوں سے بھر جائے اور وہ پورے گھر میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھریں۔ ڈیانا اپنی ماں کے گھر آ گئی اور اُس نے جیمز سے کہا کہ وہ اُسے طلاق دے دے اور دوسری شادی کر لے کیونکہ وہ اسے اولاد نہیں دے سکتی۔ ’’میں اپنی بیماری کی سزا تمھیں نہیں بھگتنے دوں گی۔‘‘ اس نے جیمز سے کہا۔

مگر جیمز بھی ڈیانا سے بہت محبت کرتا تھا وہ روزانہ ڈیانا کو منانے جاتا اور اُس سے گھر چلنے کی درخواست کرتا مگر ڈیانا بضد تھی کہ وہ اسے چھوڑ دے اور دوسری شادی کرلے۔ تب جیمز نے اُسے صاف الفاظ میں کہہ دیا۔ ’’میں کبھی دوسری شادی نہیں کروں گا اور اولاد نہ ہونے کو اپنے رشتے کے ختم ہونے کی وجہ نہیں بننے دوں گا۔‘‘ بالآخر اُس نے ڈیانا کو قائل کر لیا کہ اُس کا مونی بھی تو اس کے بچے کی طرح ہے اور وہ ہمیشہ اُن کے بچے کی طرح ان کے ساتھ رہے گا۔

مگر ابھی قسمت کو ان کا اور امتحان مقصود تھا۔ قصبے سے کسی حاسد نے ان کے خلاف درخواست دائر کر دی کہ انھوں نے ایک جنگلی جانور گھر میں پال رکھا ہے۔ جو کبھی بھی شہریوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ کیس کورٹ میں چلا گیا۔ مونی جب جیمز اور ڈیانا کے ساتھ کورٹ میں پیش ہوا تو اُس نے نیلی جینز اور چیک ٹی شرٹ اور بوٹ پہن رکھے تھے وہ بالکل ایک جنٹل مین کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ رپورٹروں سے گلے ملا اور وکیلوں سے ہاتھ ملایا اور اُن کا منہ چوما۔ جیمز اور ڈیانا نے عدالت میں کہا ’’مونی ہمارا بیٹا ہے اور ہمارے خاندان کا حصہ ہے وہ کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘

قصبے کے لوگوں نے بھی جیمز کا ساتھ دیا اور سب نے یہی کہا کہ مونی نہایت شریف جانور ہے اور انھیں اُس سے کوئی خطرہ نہیں اور پھر عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ پورے امریکا کے اخباروں کی زینت بنا۔ جج جیک نے فیصلے میں لکھا ’’میں نے مونی کا جتنا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ مونی میں وحشی جنگلی جانوروں والی کوئی خصوصیت نہیں پائی بلکہ مونی بعض انسانوں سے بھی زیادہ تہذیب یافتہ ہے۔‘‘ جیمز اور ڈیانا مقدمہ جیت گئے اب انھیں مونی سے کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا تھا۔

ڈیانا بالکل ایک چھوٹے بچے کی طرح اُس کی تربیت کرنے لگی۔ اس نے مونی کو چھری کانٹے کے ساتھ کھانا سکھایا۔ اُسے لیٹرین کا استعمال سکھایا۔ جیمز اور ڈیانا اس کے ساتھ بالکل یوں کھیلتے تھے جیسے وہ ان کی سگی انسانی اولاد ہو۔ وہ مل کر ٹی وی دیکھتے مونی ان کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتا۔ گھر کے لان میں مونی کے لیے ایک پنجرہ نما کمرا بھی بنایا گیا اور گھر میں بھی مونی کے لیے علیحدہ کمرا مخصوص کر دیا گیا تھا۔ مگر چونکہ شروع میں وہ مونی کو اپنے ساتھ سلاتے تھے۔ اس لیے اب بھی اکثر وہ رات کو ان کے ساتھ سونے کی ضد کرتا یا پھر رات میں ان کے سونے کے بعد ان کے ساتھ آ کر سو جاتا۔

جیمز اس کو اکثر شام کو پارک میں لے جاتا۔ جہاں وہ خوب کھیلتے۔ اگر جیمز تھک جاتا تو بھی مونی ضد کر کے اُسے کھیلنے پر مجبور کر دیتا۔ ڈیانا اور جیمز نے مونی کو رنگ بھرنا اوراپنا نام لکھنا بھی سکھایا۔ مونی بہت ذہین تھا وہ انتہائی خوبصورت رنگوں کا انتخاب کرتا بعض اوقات ڈیانا حیران رہ جاتی اور جیمز سے کہتی ’’دیکھو ہمارا بیٹا تو مصور ہے۔‘‘ مونی جانے اُس کی بات سمجھ پاتا تھا یا نہیں مگر وہ پیار سے اُس کے گلے میں بانہیں ڈال دیتا اور اُس کے گال چومتا۔

جیمز جب کار ریس کے لیے جاتا تب بھی اکثر مونی اس کے ساتھ جاتا۔ جیمز اور ڈیانا شاپنگ پر جاتے یا گھومنے ساحل پر جاتے تو مونی ان کے ساتھ ہوتا۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی مونی ان کے ساتھ ہوتا۔ مونی پنیر، کافی اور پیزا کا شوقین تھا۔ انھوں نے ۳  سیٹوں والی ایک سائیکل خریدی۔ اب مونی درمیان میں بیٹھتا اور وہ ایک خوش و خرم خاندان کی طرح گھومتے پھرتے۔

اس دوران مونی کی شہرت بڑھنے لگی اور اس نے (Sesame Street) سی سیم اسٹریٹ اور BJ and The Bear جیسے مشہور ٹی وی شوز میں کام بھی کیا۔ وہ جیمز اور ڈیانا کو اشاروں سے ہر بات سمجھا لیتا تھا۔ جب اس کا دل گاڑی میں گھومنے کو کرتا تو وہ ہاتھوں کو یوں گھماتا جیسے گاڑی چلا رہا ہو اور جیمز کو کار کی چابیاں پکڑاتا۔ زندگی کے ۳۰  برس اسی طرح گزر گئے۔ مگر مونی اسی طرح شوخ و شرارتی تھا۔ مگر اب وہ کچھ کچھ غصیلا ہوتا جا رہا تھا۔ ڈیانا کبھی کبھی جیمز سے کہتی ’’ہمارا بیٹا ۳۰  سال کا ہو گیا ہے مگر ابھی بھی چھوٹا بچہ ہے۔‘‘

جیمز اور ڈیانا کی پُر سکون زندگی اس وقت متاثر ہوئی جب ایک دن مونی کے پنجرے کی روشنیوں میں کچھ خرابی ہو گئی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے الیکٹریشن کو بلایا گیا۔ وہ شاید اناڑی تھا۔ وہ نالائق ایک تار ننگی چھوڑ گیا۔ مونی جب پنجرے میں آیا تو اس کا ہاتھ اتفاقاً تار پر پڑ گیا۔ اُسے شدید بجلی کا جھٹکا لگا، وہ شدید خوفزدہ ہو گیا اور چیختا ہوا گھر سے باہر بھاگ گیا۔ وہ اس قدر خوفزدہ تھا کہ کتنی دیر تک گھر نہیں آیا اور چیختا ہوا گلیوں میں پھرتا رہا۔ کسی نے پولیس کو بلا لیا مگر جب اُسے پکڑنے کی کوششیں کی تو اس نے ۲  پولیس والوں کو زخمی کر دیا اور پولیس کی گاڑی پر چڑھ کر اسے بھی خراب کر دیا۔

مونی اب ۳۱ سال کا ہو چکا تھا اور اس کی اس حرکت کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایک بڑے چمپینزی کا یوں کھلے عام آبادی میں رہنا ٹھیک نہیں ہے وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انھوں نے جیمز سے کہا کہ وہ مونی کو کسی چڑیا گھر یا جانوروں کے پارک میں بھیج دے مگر جیمز نے انکار کر دیا۔ کچھ دن بعد اس دن دوپہر کے ۲ بج رہے تھے۔ جب پولیس کی گاڑیوں نے جیمز کے گھر کو گھیرے میں لے لیا اور مونی کو ان کے حوالے کرنے کا تقاضا کیا۔ جب جیمز نے مونی کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو انھوں نے جیمز کو دھکے مار کر گھر سے نکالا اور باہر لان میں گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا۔

پھر انھوں نے بندوق کے ذریعے مونی کو بے ہوشی کا ٹیکا لگا دیا۔ سوئی چبھتے ہی مونی اپنے پنجرے میں چیخنے چلانے لگا اور اپنے ہاتھوں اور پیروں سے پنجرے کی سلاخیں اکھیڑنے کی کوشش کرنے لگا اور پھر جلد ہی دوا کے زیر اثر بے ہوش ہوگیا۔ انھوں نے اسے اسٹریچر پر ڈالا اور لے گئے۔ ڈیانا اور جیمز کے لیے وہ لمحے قیامت کے تھے وہ دونوں گھنٹوں روتے رہے اور تمام رات جاگتے رہے۔ قصبے کے لوگ وقت وقتاً فوقتاً انھیں دلاسا دینے آتے رہے اور سب نے انھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا پھر تقریباً ۸ ہزار لوگوں نے حکومت کے نام درخواست پر دستخط کیے جس میں لکھا گیا تھا کہ مونی کو واپس جیمز اور ڈیانا کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیں۔

مگر قصبے کی انتظامیہ اس بات پر راضی نہ ہوئی۔ معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئیں اور جیمز اور ڈیانا پر ایک جنگلی جانور کو قید میں رکھنے کا الزام لگا دیا گیا۔ اُدھر مونی کی حالت خراب تھی وہ کچھ کھاتا پیتا نہیں تھا اور شدید کمزور ہو گیا تھا اور پھر ایک دن اس ادارے سے جہاں مونی کو رکھا گیا تھا آنے والی ایک فون کال نے جیمز اور ڈیانا کو لرزا ڈالا۔ انھیں بتایا گیا ’’آپ کا چمپینزی بس مرنے والا ہے۔‘‘ جیمز اور ڈیانا فوراً ادارے میں پہنچے۔ مونی بہت صفائی پسند تھا مگر اس وقت وہ اپنی ہی گندگی میں لت پت پڑا تھا اس کی حالت بے حد خراب تھی۔ مگر انھیں دیکھ کر اس میں زندگی کی رمق اچانک لوٹ آئی۔

انھوں نے درخواست کی کہ انھیں روزانہ مونی سے ملنے دیا جائے۔ ان کی درخواست قبول ہوئی مگر ہفتے میں صرف ایک بار انھیں مونی سے ملنے کی اجازت ملی۔ مگر اس کی قریب جانے کی اجازت پھر بھی نہیں ملی۔ انھوں نے اس کے پنجرے میں ٹی وی رکھوایا اور ہر ہفتے اس کی پسند کے کھانے اور کھلونے لے کر جاتے وہ اشارے کرتا انھیں پاس بلاتا وہ ڈیانا کا ماتھا چومنا چاہتا تھا اور جیمز سے گلے ملنا چاہتا تھا۔ وہ اشاروں میں انھیں سمجھاتا کہ اسے گھر لے چلیں۔ جیمز اور ڈیانا تڑپ جاتے وہ جانتے تھے جتنا پیار وہ مونی سے کرتے ہیں اتنا ہی وہ ان سے کرتا ہے۔ ان کی مجبوری انھیں رلاتی۔ سال گزرنے لگے عدالت میں مقدمہ چلتا رہا مگر انھیں مونی واپس نہیں ملا۔

اس دوران وہ مونی کے لیے ایک بہتر جگہ کی کوشش کرتے رہے۔ ۵ سال بعد آخر کار وہ مونی کو ایک ایسے پارک میںمنتقل کرانے میں کامیاب ہو گئے جہاںاس کو اس ادارے سے زیادہ سہولیات مل سکتیں تھیں۔ وہ مونی کو چھو سکتے تھے، گلے لگا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ دونوں جتنی دیر چاہتے مونی کے ساتھ رہ سکتے تھے۔ گو کہ وہ جگہ دور تھی مگر دونوں میاں بیوی ہر ہفتے ڈھائی گھنٹے کا سفر کر کے مونی سے ملنے جاتے۔ وہ اس کے لیے تحفے اور اس کی پسند کے کھانے بھی لے جاتے۔

یہ مونی کی ۳۹  ویں سالگرہ کا دن تھا جیمز اور ڈیانا نے خصوصی طور پر ایک کیک تیار کرایا۔ مونی کو رس بھری بہت پسند تھی۔ اس لیے انھوں نے رس بھری کیک بنوایا اور اس کے لیے چاکلیٹ کا ایک بڑا ڈبا بھی لیا اور غباروں اور دیگر تحفوں کے ساتھ وہ مونی سے ملنے پہنچے۔ مونی تحفے پا کر بے حد خوش ہو رہا تھا۔ وہ تالیاں بجا رہا تھا اور پھر اس نے جیمز کا منہ چوما اور اس کے ہاتھ چومنے لگا۔ جیمز بھی آج اتنے برسوں بعد مونی کو خوش دیکھ کر بہت مسرور تھا وہ بھی پنجرے کی سلاخوں سے ہاتھ ڈال کر مونی کو گلے لگا رہا تھا اور پیار کر رہا تھا۔ ڈیانا نے کیک کاٹا، مونی اور جیمز کے منہ میں دونوں ہاتھوں سے ایک ساتھ ڈال دیا۔

مونی کیک کھانے اور تالیاں بجانے لگا۔ ڈیانا اور کیک لینے مڑی تو اسے کوئی ۴۰  فٹ دور ایک چمپینزی کھڑا نظر آیا۔ وہ پنجرے سے باہر تھا اور نجانے کیسے کھلا رہ گیا تھا۔ پلک جھپکنے میں وہ ڈیانا کے سر پر پہنچ گیا اور اس پر حملہ کر دیا۔ ڈیانا بھاگی اسی اثناء میں جیمز اس کے قریب پہنچ گیا اور اسے بچانے کی کوشش کرنے لگا مگر اس دوران چمپینزی ڈیانا کا بائیں ہاتھ کا انگوٹھا چبا کر توڑ چکا تھا۔ جیمز نے ڈیانا کو اس گرفت سے چھڑایا اور میز کے نیچے دھیکل دیا جس پر کیک رکھا تھا۔

وہ خوفناک چمپینزی اب جیمز کے درپے ہو گیا۔ جیمز بھاگنے لگا مگر کیا دیکھتا ہے کہ دوسری طرف سے ایک اور چمپینزی اس کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔ اب جیمز درمیان میں تھا اور دونوں چمپینزی اس پر حملہ آور تھے وہ اپنے ہاتھوں سے انھیں پیچھے دھکیل رہا تھا مگر ان کی طاقت کے آگے وہ بے بس تھا۔ ایک چمپینزی نے اپنے دانت اس کی دائیں آنکھ کے قریب اس کی پیشانی پر گاڑ دیے اور پھر اپنے لمبے نوکیلے ناخن سے ایک دائیں آنکھ نکال ہی دی پھر اس نے جیمز کی ناک کو بری طرح چبا ڈالا۔ اس دوران دوسرا چمپینزی اس کے ہاتھوں کی انگلیاں چبا رہا تھا۔

پھر پہلے والے چمپینزی نے اپنے خونی پنجوں سے جیمز کے چہرے کی بائیں طرف کی کھال کو بُری طرح ادھیڑ ڈالا اور پھر اس کی کھوپڑی میں دانت گاڑ دیے۔ دونوں چمپینزیوں پر جنون سوار تھا انھوں نے پھر اس کے ہونٹ بھی چباڈالے۔ جیمز زمین پر گر گیا۔ ڈیانا مسلسل چیخیں مار رہی تھی مگر ابھی تک وہاں مدد کے لیے کوئی نہیں آیا تھا۔ جیمز کے نیچے گرنے کے بعد انھوں نے اُس کا بایاں پائوں بُری طرح چبا ڈالا اور اس کی ٹانگوں کو نوچنے لگے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اسے زندہ کھا جانا چاہتے ہیں۔

ڈیانا کے مسلسل چیخنے پر گارڈ وہاں آ گیا اور اس نے دونوں چمپینزیوں کو باری باری گولی مار دی۔ جیمز کی حالت نازک تھی۔ انھوں نے اس کو نوچ نوچ کر ناقابل شناخت بنا دیا تھا مگر ایسے میں جیمز نے ثابت کیا کہ وہ نہایت مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ اس کا خون بُری طرح بہہ رہا تھا جسم کا کوئی حصہ سلامت نہ تھا مگر وہ ہوش میں تھا۔ جب اس کو ایمبولینس میں ڈالا جا رہا تھا۔ ڈیانا رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی ’’تم مجھ سے پہلے نہیں مر سکتے جیمز کبھی نہیں……. ‘‘۔

جب ڈیانا کی نظر مونی پر پڑی تو وہ سکتے میں تھا اور اپنے پنجرے کے کونے میں دُبک گیا تھا اس کی نگاہیں جیمز پر گڑی تھی اور جیمز کے جسم سے نکلتا خون مونی کی آنکھوں سے آنسو بن کر گر رہا تھا۔ جیمز کی زندگی باقی تھی۔ جو وہ اس قدر خوفناک حملے کے بعد بھی بچ گیا۔ ڈیانا کے اس یقین اور محبت نے اسے بچا لیا۔ اس کی سیکڑوں کے حساب سے سرجریاں ہوئیں۔ وہ زندہ بچ گیا تھا مگر جب مہینوں بعد اسے پہلی بار مکمل ہوش آیا تو اس کا پہلا سوال ہی تھا ’’مونی کیسا ہے؟‘‘ ڈیانا نے اسے تسلی کرائی کہ مونی بالکل ٹھیک ہے اور وہ جلد اسے دیکھے گا۔ جب جیمز کی حالت ذرا سنبھلی تو ڈیانا اسے گھر لے آئی۔

مگر وہ اب ایک معذور شخص تھا جو نہ خود کپڑے بدل سکتا تھا نہ نہا سکتا تھا یہاں تک کہ کسی کی مدد کے بغیر کھانا بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ اپنے ضروری امور کے لیے بھی وہ ڈیانا کا محتاج تھا۔ دائیں پائوں کی ایڑی میں ایک دو انچ کا سوراخ تھا۔ اس کے چہرے پر اب ناک نہیں بلکہ اس کی جلد کے ساتھ ہی دو چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے جن سے وہ سانس لیتا تھا۔ اس کی بائیں آنکھ کی جگہ ایک مصنوعی عدسہ لگا تھا اس کے چہرے اور گالوں کی چونکہ کوئی ہڈی بھی سلامت نہیں بچی تھی۔

اس لیے کوئی بھی اسے پہچان نہیں سکتا تھا۔ چمپینزیوں نے اس کے ہونٹ چبا ڈالے تھے اور کئی سرجریوں کے بعد بھی اس کا منہ بس اس قابل ہو سکا کہ کچھ تھوڑا بہت کھا پی سکے مگر وہ بھی منہ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے آدھا اس کے اندر جاتا تھا اور آدھا باہر گرتا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں نہیں تھیں۔ صرف ان کی جڑیں تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ کی حالت اس سے بھی بُری تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے کچھ پکڑ نہیں سکتا تھا۔

مگر جیمز کی ہمت کہ وہ زندہ تھا۔ اس کی وفا شعار اور خدمت گزار بیوی نے اس کی خدمت میں دن رات ایک کر رکھا تھا۔ گزر اوقات کے لیے اب وہ جیمز کی جگہ اپنے گیراج میں گاڑیاں ٹھیک کرتی تھی اور جیمز اس کی رہنمائی کرتا تھا۔ اس سارے مشکل دور میں بھی انھوں نے مونی کو کبھی فراموش نہیں کیا اور اسے پہلے سے بھی بہتر ایک جنگل پارک میں بھجوانے کی کوشش کرتے رہے۔ حادثے کے چند مہینوں بعد مونی کو پارک منتقل کر دیا گیا۔ جیمز کی جیسی بھی حالت تھی وہ اسی حالت میں ۴۵  منٹ کا سفر کر کے ہر ہفتے پھر سے مونی سے ملنے جانے لگا۔

گو کہ اس کی یہ حالت چمپینزیوں نے کی تھی مگر مونی اس کے لیے چمپینزی نہیں بلکہ اس کی سگی اولاد کی مانند تھا اور پھر ایک دن ایک خبر نے انھیں ہلا ڈالا، پارک کے مالک نے انھیں کال کی اور بتایا کہ مونی اپنے پنجرے کی ۶  سلاخیں توڑ کر فرار ہو گیا ہے۔ جیمز اور ڈیانا فوراً پارک پہنچے اور مونی کی تلاش شروع ہو گئی۔ انھوں نے سارا پارک چھان مارا مگر مونی نہیں ملا۔

آج بھی جیمز اور ڈیانا زندہ ہیں۔ جیمز اپنی تمام تر معذوریوں کو ہمت سے سہہ رہا ہے اور ڈیانا اپنی ہمت سے بڑھ کر اس کی خدمت کر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ دونوں محبت، پیار، ایثار، وفا اور ہمت کی انمول داستانیں ہیں۔ وہ کبھی قسمت سے گلہ نہیں کرتے ، کبھی اپنی حالت پر نہیں روتے……… ہاں روتے ہیں تو صرف اس بات پر ان کا بیٹا مونی کہیں گھو گیا ہے اور وہ دونوں اس امید پر زندہ ہیں کہ وہ ایک بار پھر اس سے ضرور ملیں گے۔ انھیں یقین ہے وہ لوٹ کر آئے گا……….. ۔

0 comments:

Post a Comment